امریکی صدر ڈونلڈ پہلے اپنے صدارتی انتخاب کے لیے بہت مصروف تھے اور اب الیکشن میں ناکامی کے بعد مختلف آپشنز بشمول قانونی چیلنجز کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔

اب جنوری میں وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہوتے ہیں یا نہیں، وہ تو آنے والے ہفتوں میں معلوم ہو ہی جائے گا۔

مگر انتخابات سے باہر بھی بہت کچھ ایسا ہے جو صدر کی توجہ چاہتا ہے، جیسے امریکا میں ٹک ٹاک پر لٹکتی پابندی کی تلوار۔

یہی وجہ ہے کہ ٹک ٹاک جاننا چاہتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکا پر اس پر پابندی کی دھمکیوں پر کیا چل رہا ہے۔

اسی لیے ٹک ٹاک کی جانب سے امریکی عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس ککی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے جو حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، اس کی مدت رواں ہفتے ختم ہورہی ہے۔

کمیٹی آن فارن انوسٹمینٹ ان دی یوناٹیڈ اسٹیٹس (سی ایف آئی یو ایس) وہ ادارہ ہے جو غیرملکی سرمایہ کاری سے قومی سلامتی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کا ذمہ دار ہے۔

اسی کمیٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ بائیٹ ڈانس (جو ٹک ٹاک کی ملکیت رکھتی ہے) کے چینی حکومت سے روابط امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اگست میں 2 مختلف ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے وی چیٹ اور ٹک ٹاک کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات میں ٹک ٹاک کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ اپنے امریکی شیئرز 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت کردے، دوسری صورت میں اسے بند کردیا جائے گا۔

اسی طرح وی چیٹ کو بھی بتایا گیا تھا کہ وہ بھی اپنے امریکی اثاثے کسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کو 45 دن میں فروخت کردے، دوسری صورت میں اسے بھی بند کردیا جائے گا۔

امریکی صدر کی دھمکی کے بعد متعدد امریکی کمپنیوں نے ٹک ٹاک اور وی چیٹ کے امریکی اثاثے خریدنے کی دلچسپی بھی ظاہر کی تھی اور بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی کمپنیوں کو مزید 45 دن کی مہلت دی تھی۔

ٹک ٹاک کوو دی گئی مدت 12 نومبر کو ختم ہورہی ہے اور اس عرصے میں اسے امریکا میں اپنے اثاثے کسی امریکی کمپنی کو فروخت کرنا تھے۔

اس مقصد کے لیے ٹک ٹاک کے اوریکل اور وال مارٹ سے شراکت داری کا معاہدہ طے ہوا تھا، جس کا مقصد امریکی صدر کے مطالبات کو پورا کرنا تھا۔

مگر اس معاہدے پر سی ایف آئی یو ایس کا ردعمل کیا تھا، وہ اب تک معلوم نہیں ہوسکا اور یہی وجہ ہے کہ ٹک ٹاک نے پابندی کی مدت میں ایک ماہ کے اضافے کے لیے درخواست دی۔

تاہم ٹک ٹاک نے اپنے بیان میں کہا کہ لگ بھگ 2 ماہ سے اس نے امریکی حکومت کی جانب سے اس بارے میں کچھ نہیں سنا اور سی ایف آئی یو ایس نے اب تک یہ بھی نہیں بتایا کہ 12 نومبر کیا ہوگا، اگر مطالبات پورے نہیں ہوئے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹک ٹاک کی درخواست میں امریکی عدالت میں اس پر نظرثانی کی درخواست کی گئی۔

ٹک ٹاک کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 'ایک سال کے دوران ٹک ٹاک کی جانب سے سی ایف آئی یو ایس کے ساتھ بھرپور انداز سے رابطے میں ہے تاکہ اس کے قومی سلامتی کے خدشات کو ختم کیا جاسکے، حالانکہ ہم اس کے تجزیے سے متفق نہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ شراکت داری کے معاہدے پر صدر کی جانب سے ابتدائی منظوری کے بعد خدشات پر مطمئن کرنے کے لیے ہم نے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تفصیلی حل کی پیشکش کی تھی، مگر لگ بھگ 2 ماہ سے ہمیں اپنے ڈیٹا پرائیویسی اور سیکیورٹی فریم ورک پر کوئی فیڈبیک نہیں ملا۔

یہ پہلی بار نہیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹک ٹاک پر پابندی کو بھول گئے۔

اس سے پہلے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کی مدت ستمبر میں ختم ہوجائے گی، حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک ایگزیکٹیو آرڈر کو جاری کرکے اس مدت کو نومبرتک بڑھا چکے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں