چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار سیٹھ کورونا کے باعث انتقال کرگئے

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2020
چیف جسٹس کے پروٹوکول افسر نے وقار احمد سیٹھ کے انتقال کی تصدیق کی — فائل فوٹو / اے پی پی
چیف جسٹس کے پروٹوکول افسر نے وقار احمد سیٹھ کے انتقال کی تصدیق کی — فائل فوٹو / اے پی پی

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔

چیف جسٹس کے پروٹوکول افسر نے وقار احمد سیٹھ کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی اور وہ اسلام آباد کے کلثوم انٹرنیشنل ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

ترجمان پشاور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ میں 22 اکتوبر کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور ابتدائی طور پر انہیں پشاور کے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں سے بعد ازاں انہیں اسلام آباد کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور ان کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا اور مرحرم کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مرحوم کی مغفرت اور پسماندگان کے صبر جمیل کے لیے دعاگو ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا جسٹس وقار سیٹھ کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان

پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس وقات احمد سیٹھ کے انتقال پر کل ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ قوم ایک نڈر اور بے باک جج سے محروم ہو گئی ہے جبکہ جسٹس وقار سیٹھ کا انتقال ایک قومی نقصان ہے۔

پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے جج

یاد رہے کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ خصوصی عدالت کے اس 3 رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت سنائی تھی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

بعد ازاں 20 دسمبر کو کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ جسٹس نذر اکبر نے انہیں بری کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے'

تاہم اس تفصیلی فیصلے میں جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کی اس رائے سے اختلاف کیا تھا جس میں انہوں نے پیرا گراف 66 میں یہ لکھا تھا کہ ’اگر پرویز مشرف سزا سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔

اس پیرا پر جسٹس شاہد نے اختلاف کیا اور کہا تھا کہ یہ بنیادی قانون کے خلاف ہے اور مجرم کے لیے موت کی سزا کافی ہے۔

علاوہ ازیں تفصیلی فیصلے کے بعد پاک فوج کے اس وقت کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک مختصر پریس کانفرنس بھی کی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کردیا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کون تھے؟

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ 16 مارچ 1961 کو خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے 1977 میں کینٹ پبلک اسکول پشاور سے میٹرک کیا اور 1981 میں اسلامیہ کالج پشاور سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 1985 میں خیبر لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1986 میں پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے 1985 میں عملی وکالت کا آغاز کیا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ 1990 میں ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ انہیں 2011 میں ایڈیشنل سیشن جج تعینات کیا گیا اور اس کے بعد وہ بینکنگ کورٹس سمیت مختلف عدالتوں میں تعینات رہے۔

انہوں نے جون 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں