اساتذہ کو ہفتے میں دو دن اسکول آنا ہوگا، وزیر تعلیم پنجاب

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2020
وزیر تعلیم پنجاب نے تفریحی مقامات پر بھی بچوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کردیا— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر تعلیم پنجاب نے تفریحی مقامات پر بھی بچوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کردیا— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر تعلیم پنجاب مراد راس نے کہا ہے کہ پنجاب میں اسکولوں کی بندش کے باوجود اساتذہ کو ہفتے میں دو دن پیر اور جمعرات کو اسکول آنا ہو گا۔

وزیر تعلیم پنجاب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس پنجاب میں ایک لاکھ 20 ہزار اسکول ہیں اور سب نے مل کر جو سفارشارت دی ہیں اس کی روشنی میں اس ہفتے نجی و سرکاری اسکول بند کردیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: ملک کے تمام تعلیمی ادارے 26 نومبر سے بند کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تجویز کیا ہے کہ بچوں کو اس مرتبہ ہوم ورک کے بغیر نہیں جانے دیا جائے گا کیونکہ ان چھٹیوں میں اس طرح ہوم ورک دینا بہت ضروری ہے جیسے ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں دیتے ہیں اور ہم نے تجویز دی ہے کہ بچوں کی اگلی کلاس میں پروموشن کا 50 فیصد انحصار اس ہوم ورک پر ہو گا۔

مراد راس نے کہا کہ پہلی سے 8ویں جماعت تک سال کا اختتام مارچ تک ہی ہو گا کیونکہ 50 فیصد گریڈ ہوم ورک پر ہو گا اور 50 فیصد کے ہم ایم سی کیوز دیں گے، ان کے امتحان مارچ میں ہی ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ نویں سے بارہویں کے بورڈ کے امتحان مارچ کے بجائے اب مئی یا جون میں ہوں گے کیونکہ کورس مکمل ہو نہیں سکتا اور تاریخ کا حتمی فیصلہ بورڈ کرے گا۔

صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ پنجاب میں اساتذہ کو ہفتے میں دو دن پیر اور جمعرات کو آنا ہو گا، یہ فیصلہ ہم نے اس لیے کیا ہے کیونکہ اساتذہ کا اسکول کے ساتھ رابطہ رہنا بہت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: 2 ہفتوں کے دوران ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی شرح دگنی ہوگئی

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ایشوز اسکول کے ساتھ آتے ہیں تو وہ رابطے میں رہ سکتے ہیں، بالفرض اگر کسی اسکول میں 10 ٹیچرز ہیں تو 50 فیصد پیر کو آئیں گے اور 50 فیصد جمعرات کو آئیں گے۔

مراد راس نے کہا کہ میں نے کمیٹی سے درخواست کی کہ اگر ہم اسکول بند کرنے جا رہے ہیں تو نوٹیفکیشن میں یہ ہونا چاہیے کہ پھر ان بچوں کو نہ مال جانے کی اجازت ہونی چاہیے، پارکس بھی بند ہونے چاہئیں، مارکیٹوں میں بھی انہیں جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ بصورت دیگر یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے بھی دیکھا تھا کہ ایکدم پارک بھر جاتے ہیں کیونکہ سب کرکٹ کھیلنے آ جاتے ہیں، مالز بھر جاتے ہیں، مری اور نتھیا گلی پہنچ گئے ہیں اور سب چھٹیاں منانے نکل جاتے ہیں تو میری ان سے درخواست تھی کہ اس مرتبہ اگر ہم اسکول بند کرنے جا رہے ہیں تو نوٹیفکیشن میں لکھا ہونا چاہیے کہ اگر کوئی بچہ مال میں آ رہا ہے تو اسے مال میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ایک بیماری کو سنبھالنا ہے، ایک مصیبت کو روکنا ہے تو یہ بہت ضروری ہے کہ صرف اسکول بند کرنے سے فرق نہیں پڑے گا بلکہ باقی چیزوں کو بھی ساتھ دیکھنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: کووڈ 19: حکومتِ سندھ ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد پر تذبذب کا شکار

وزیر تعلیم نے کہا کہ میکرو سطح پر تو سب نے چھٹیوں کا اعلان کردیا لیکن مائیکرو سطح پر جو چیزیں ہیں مثلاً کس طرح امتحان لیے جانے چاہئیں، کلاسز ہونی چاہئیں، ٹیچرز کو آنا چاہیے، اس بات کا فیصلہ صوبے خود کریں گے کیونکہ ہر صوبے کے مختلف مسائل ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یکم جنوری کو ہم دوبارہ بیٹھیں گے اور ہم پھر فیصلہ کریں گے کہ 11 جنوری کو اسکول کھولنا محفوظ ہے یا نہیں لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 11 جنوری کو اسکول کھل جائیں گے۔

مراد راس نے کہا کہ میں اسکول بند کرنے کے بالکل حق میں نہیں تھا مگر پچھلے دو ہفتوں میں جو اعدادوشمار دیکھے ہیں جس طرح نمبرز بڑھ رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہم پاکستان میں وبا کے عروج کے موقع پر تھے، آج ہم اس کے 50 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم نے اسے کنٹرول نہ کیا تو یہ قابو سے باہر ہو سکتی ہے، ایک مرتبہ کنٹرول سے باہر ہو گئی تو پھر اس پر قابو پانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اہم چیز یہ ہے کہ ہم اس کو کنٹرول کر لیں، تو جیسے ہم پہلے اس وبا سے نکل گئے تھے تو اس مرتبہ بھی نکل جائیں گے۔

مراد راس نے کہا کہ اسکولوں میں کیسز زیادہ نہیں آ رہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر نجی اسکولوں میں کیسز آ بھی رہے ہیں تو بتائے نہیں جا رہے، ٹیچرز اور طلبہ دونوں میں کیسز کا انکشاف ہوا ہے، اکثر لوگ اس لیے بتانے سے گھبرا رہے تھے کہ کہیں اسکول دوبارہ بند نہ ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کی دوسری لہر: پاکستان میں مزید 2 ہزار 756 افراد متاثر، فعال کیسز 38ہزار سے زائد

حکومتی احکام کے باوجود اسکول بند نہ کرنے والوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کا فیصلہ ہے اور اس پر عملدرآمد کروانا میرا کام ہے، حکومت کی رٹ کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیسز کی جانچ کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ ہسپتال جا کر دیکھ لیں کہ کتنے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ کیسز دوبارہ عروج کی طرف جا رہے ہیں، ہفتہ وار بنیادوں پر کیسز دگنے ہو رہے ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ جو ادارے آن لائن تعلیم دے سکتے ہیں، انہیں بالکل اجازت ہے جبکہ ہم اپنا تعلیم گھر بھی دوبارہ سے ایکٹی ویٹ کررہے ہیں۔

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کوئی تعلیمی ادارہ، انسٹی ٹیوشن، ٹیوشن سینٹر یا یونیورسٹی نہیں کھلی ہو گی، کوئی اگر ٹیوشن لینا چاہے تو گھر پر ٹیچر کو بلا کر لے کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں