ایک اور کووڈ ویکسین تیار، استعمال کی اجازت کی درخواست جمع

30 نومبر 2020
اس ویکسین کی آزمائش مارچ میں شروع ہوئی تھی — اے پی فوٹو
اس ویکسین کی آزمائش مارچ میں شروع ہوئی تھی — اے پی فوٹو

نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے رواں ماہ فائرز اور بائیو این ٹیک نے اپنی ویکسین کے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے حتمی نتائج جاری کیے تھے، جس میں اسے بیماری سے تحفظ کے لیے 95 فیصد موثر قرار دیا۔

اب امریکا کی موڈرینا کمپنی نے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے نتائج جاری کیے ہیں۔

موڈرینا کمپنی نے سب سے پہلے رواں سال مارچ میں اپنی ویکسین کا انسانی ٹرائل شروع کیا تھا اور رواں ماہ کے شروع میں آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج میں کہا گیا تھا کہ یہ ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے لگ بھگ 95 فیصد موثر ہے۔

اب حتمی نتائج میں تصدیق کی گئی ہے کہ یہ ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے میں 94 فیصد تک موثر ہے اور ٹرائل میں جن افراد کو اس کا استعمال کرایا گیا، ان میں سے کوئی بھی بیماری کی سنگین شدت کا شکار نہیں ہوا۔

حتمی نتائج کے بعد کمپنی کی جانب سے ویکسین کی ایمرجنسی منظوری کے لیے امریکا اور یورپ میں لائسنس کے حصول کے لیے درخواست اور ڈیٹا بھی جمع کرادیا گیا ہے۔

اس ویکسین میں فائرز/بائیو این ٹیک کی طرح ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس کے لیے وائرس کے جینیاتی کوڈ سے مدد لی گئی۔

دونوں کمپنیوں کی ویکسینز کے حتمی نتاج حیران کن حد تک ملتے جلتے ہیں۔

موڈرنا اب تیسری کمپنی بن گئی ہے جس نے اپنا ڈیٹا ریگولیٹرز کو منظوری کے لیے جمع کرایا ہے۔

اس سے قبل فائزر اور آکسفورڈ یونیورسٹی (جس کی ویکسین کو 70 فیصد تک موثر قرار دیا گیا تھا) نے ڈیٹا ریگولیٹرز کو منظوری کے لیے جمع کرایا تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ اس کا پہلا ڈوز کم مقدار میں دینے سے وہ 90 فیصد تک موثر ثابت ہوتی ہے تاہم بعد میں اعتراف کیا گیا کہ ایسا غلطی سے ہوا۔

موڈرینا کے آخری مرحلے کے ٹرائل میں 30 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 196 افراد میں کووڈ کی تصدیق ہوئی۔

ان میں سے 30 شدید بیمار ہوئے جبکہ ایک ہلاکت ہوئی مگر ان میں سے کسی کو بھی موڈرینا ویکسین استعمال نہیں کرائی گئی تھی بلکہ وہ پلیسبو گروپ کا حصہ تھے۔

ٹرائل میں 7 ہزار افراد 65 سال سے زائد عمر کے تھے جبکہ 5 ہزار سے زیادہ ایسے جوان لوگ تھے جو مختلف امراض ذیابیطس، موٹاپے اور امراض قلب کا شکار تھے۔

کمپنی کے مطابق ویکسین کے کوئی مضر اثرات بھی نظر نہیں آئے، بس انجیکشن کے مقام پر سوجن، سردرد اور تھکاوٹ عام سائیڈ ایفیکٹس تھے۔

کمپنی نے مزید بتایا کہ ابھی مکمل نتائج جاری نہیں ہوئے بلکہ انہیں جلد کسی طبی جریدے میں شائع کیا جائے گا۔

موڈرینا کے چیف ایگزیکٹیو اسٹیفن بینکل نے بتایا 'ٹرائل کے حتمی مثبت نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری ویکسین کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے 94.1 فیصد تک موثر ہے اور سب سے خاص بات اس کی سنگن شدت کی روک تھام ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ویکسین اس وبا کو بدلنے کے لیے طاقتور ٹول ثابت ہوگی اور بیماری کی سنگین شدت، ہسپتال میں داخلے اور اموات کو روک سکے گی'۔

امریکا میں اس ویکسین کے استعمال کی منظوری کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا اجلاس 17 دسمبر کو ہوگا۔

یہ ویکسین امریکا سے باہر اگلے سال تک دستیاب نہیں ہوسکے گی۔

کمپنی کے مطابق وہ 2020 کے آخر تک 2 کروڑ ڈوز امریکا میں ترسیل کرے گی اور توقع ہے کہ اگلے سال 50 کروڑ سے ایک ارب ڈوز دنیا بھر میں تیار کیے جائیں گے۔

موڈرینا پہلے ہی 10 کروڑ ڈوز امریکا کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوچکی ہے جبکہ مزید 40 کروڑ ڈوز فروخت کرنے کا آپشن دیا گیا ہے۔

جاپان، برطانیہ، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، قطر اور اسرائیل نے بھی اس طرح کے معاہدے کیے ہیں جبکہ یورپی کمیشن بھی 8 سے 16 کروڑ ڈوز خریدنا چاہتی ہے۔

موڈرینا کی ویکسین کو فائزر کی ویکسین پر ایک اہم سبقت حاصل ہے۔

فائزر ویکسین کو منفی 70 سے 80 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوگی جبکہ موڈرینا کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ویکسین کی شیلف لائف اور استحکام کو بہتر کیا ہے۔

یعنی یہ ویکسین عام فریج کے درجہ حرارت یعنی 2 سے 8 سینٹی گریڈ پر 30 دن کے لیے اسٹور کی جاسکتی ہے جبکہ منفی 20 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر اسے 6 ماہ تک اسٹور کیا جاسکتا ہے۔

یہ ویکسین 2 ڈوز میں استعمال کرائی جائے گی اور فی ڈوز قیمت 25 ڈالرز ہوگی، یعنی ایک مریض کے لیے درکار 2 ڈوز کی قیمت 50 ڈالرز ہوگی۔

اس کے مقابلے میں فائزر کی ویکسین کا ایک ڈوز 19.50 ڈالرز کا ہوگا اور 2 ڈوز کے لیے 39 ڈالرز درکار ہوں گے۔

آسترازینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کا ایک ڈوز لگ بھگ 4 ڈالرز کا ہوگا جبکہ جانسن اینڈ جانسن اور سنوفی کی ویکسینز کی لاگت 10 ڈالرز فی ڈوز ہونے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں