سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا اپنے کیس کی جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو خط

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2020
سابق جج کو 2018 میں ایک تقریر کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق جج کو 2018 میں ایک تقریر کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی اپیل کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کو ایک اور خط لکھ دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2 صفحات پر مشتمل اپنے خط میں شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ ’ان خاص حالات میں، میں آپ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ معاملے پر جلد سماعت کے لیے (عدالتی) دفتر کو ضروری ہدایات جاری کریں‘۔

بظاہر یہ تیسرا ایسا خط ہے جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا۔

اس سے قبل 24 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلہ کا انتظار کریں جو جلد ہی آنے والا ہوگا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

بعد ازاں 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری کیا گیا جبکہ 4 نومبر کو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس جاری ہوئے۔

عدالت عظمیٰ کے اس 5 رکنی بینچ نے سماعت کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

اپنے خط میں سابق جج نے لکھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کا ان کے لیے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

اس خط کا موضوع شوکت عزیز صدیقی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے آئینی درخواست 2018/76 کے نمٹانے میں طویل تاخیر سے متعلق ہے۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: فوج کی اعلیٰ قیادت خفیہ اداروں کو لگام دے، جسٹس شوکت صدیقی

ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ ’میرے کیس میں اس کی خاص مثال ملتی ہے جہاں بینچ کے واضح احکامات کے باوجود درخواست کو کبھی خود سے مقرر نہیں کیا گیا اور ہر مرتبہ میں نے تحریری درخواستوں کے ذریعے آپ (چیف جسٹس) تک رسائی حاصل کی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میری حیرانی اور مایوسی کو 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن دفتر کی جانب سے درخواست کو مقرر کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔

خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔


یہ خبر یکم دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں