امریکی جنرل کی قطر میں طالبان نمائندوں سے ملاقات

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2020
جنرل مارک ملے اس سے قبل جون میں طالبان عہدیداروں سے ملاقات کر چکے ہیں—ائل/فوٹو:رائٹرز
جنرل مارک ملے اس سے قبل جون میں طالبان عہدیداروں سے ملاقات کر چکے ہیں—ائل/فوٹو:رائٹرز

امریکا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملے نے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی اور افغانستان میں کشیدگی کو کم کرکے امن عمل کو تیز کرنے پر زور دیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ جنرل مارک ملے نے ملاقات طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں 5 جنوری تک وقفے کے دوران کی۔

افغان طالبان اور حکومت 5 جنوری سے ایجنڈے پر مذاکرات جاری رکھیں گے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

امریکی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنرل مارک ملے نے اس سے قبل جون میں طالبان کے عہدیداروں سے ملاقات کی تھی لیکن اس اجلاس کے حوالے سے خبر جاری نہیں کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف طالبان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جبکہ سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور امریکی فوج کےدیگر اعلیٰ عہدیدار طالبان سے افغانستان میں اس سے پہلے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔

امریکی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ 'چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے فوری طور پر کشیدگی کم کرنے اور سیاسی حل کے لیے مذاکرات کو تیز کرنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا جو خطے کے استحکام اور امریکا کے قومی مفادات کے تحفظ کا باعث ہیں'۔

امریکی جنرل اس دورے کے موقع پر کابل بھی گئے اور افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں موجود تمام امریکی فوجی کرسمس تک اپنے گھروں پر ہونے چاہئیں، ٹرمپ

خیال رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے معاہدے کے بعد اعلان کیا تھا کہ جنوری کے وسط تک افغانستان سے امریکاکے 4 ہزار 500 میں سے 2 ہزار 500 فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا جبکہ مکمل انخلا طویل جنگ کے بعد امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے اور مخالفت کے پیش نظر مؤخر کردیا گیا۔

افغانستان میں حالیہ دنوں کشیدگی میں اضافے سے اس جنگ کے خاتمے کی امیدیں معدوم ہوتی نظر آرہی تھی جو افغانستان میں 2001 میں شروع ہوئی تھی۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے رواں ماہ کہا تھا کہ افغانستان میں کشیدگی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے اور متحارب گروپس سے کہا گیا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں جاری جنگ میں2001 سے 2020 کے درمیان 3 ہزار 500 اتحادی مارے گئے، جن میں سے 2 ہزار 400 امریکی اور باقی نیٹو میں موجود دیگر اقوام کے افراد تھے، مزید یہ کہ تقریباً 20 ہزار سے زائد امریکی اس 19 سال کی طویل جنگ میں زخمی ہوئے۔

اس کے علاوہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکا نے مجموعی طور پر 975 ارب ڈالر خرچ کیے۔

مزید یہ کہ طوالت اور نقصانات کی وجہ سے یہ جنگ امریکا کی تاریخ کی غیر مقبول ترین جنگ بن گئی ہے اور 2008 کے بعد سے ہر صدارتی امیدوار اس تنازع کو جلد از جلد ختم کرنے کا وعدہ کرتا رہا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مواقع پر یہ تجویز دی کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی فوجیں جنگ زدہ ملک سے جلد از جلد واپس آجائیں۔

امریکی ویب سائٹ ایکسی اوز کو اگست میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ 3 نومبر کے انتخاب تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرکے 5 ہزار تک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ قطر کے شہر دوحہ میں ہوا تھا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ سیکیورٹی ضمانت، افغان حکومت کے ساتھ عسکریت پسندوں کی مکمل جنگ بندی کے بدلے مئی 2021 تک تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔

امریکی میڈیا کے مبصرین نے خبردار کیا کہ صدر ٹرمپ کے اس منصوبے سے بین الاقوامی مذاکرات میں کابل کی پوزیشن کمزور جبکہ طالبان کی مضبوط ہوگی جو پہلے ہی اپنی برتری بنائے ہوئے ہیں۔

مبصرین کا مزید کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ 3 نومبر کے انتخاب ہار جاتے ہیں تو نئی حکومت ان کے افواج کے انخلا کے منصوبے پر نظر ثانی کرسکتی ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے ایوان نمائندگان کمیٹی کو بتایا کہ جب افغانستان میں فوجیوں کی تعداد ساڑھے 4 ہزار تک پہنچ جائے گی تب اس وقت وہاں امریکی فوج کی موجودگی کا حتمی جائزہ لیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں