سپریم کورٹ: معاونین خصوصی، مشیران کے تقرر کے خلاف دائر درخواست خارج

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2020
زلفی بخاری کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دے دیا تھا کہ دوہری شہریت والا معاون خصوصی بن سکتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
زلفی بخاری کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دے دیا تھا کہ دوہری شہریت والا معاون خصوصی بن سکتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے معاونین خصوصی اور مشیران کے تقرر کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے دائر درخواست خارج کردی۔

جسٹس منیب اختر کے کیس کی سماعت سے معذرت کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

درحقیقت میں یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے 30 جولائی کو مسترد ہونے والی درخواست کے خلاف اپیل تھی جو ایڈووکیٹ ملک منصف اعوان نے اپنے وکیل محمد اکرام چوہدری کے ذریعے دائر کی تھی۔

سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ ذوالفقار عباسی بخاری المعروف زلفی بخاری کے کیس میں معاونین خصوصی کے تقرر کے حوالے سے اصول طے کر چکی ہے، زلفی بخاری کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دے دیا تھا کہ دوہری شہریت والا معاون خصوصی بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کے معاونین کی تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست

اس پر وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ میرا کیس دوہری شہریت کا نہیں ہے، مشیروں اور معاونین کی فوج ظفر موج ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیصلے میں یہ بھی طے ہو چکا کہ وزیراعظم معاون خصوصی رکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ میں آپ نے صرف دوہری شہریت کا نقطہ اٹھایا تھا، دوہری شہریت والوں کی وفاداری پر شک نہیں کیا جا سکتا، جس کام پر پابندی نہ ہو اس کے کرنے کی ممانعت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کسی بھی ماہر کی معاونت اور رائے حاصل کر سکتے ہیں، وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رولز آف بزنس میں لکھا ہوا ہے کہ دوہری شہریت والا معاون خصوصی بن سکتا ہے اور آئین وزیراعظم کو معاونین رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونین خصوصی کی دوہری شہریت کے خلاف درخواست مسترد کردی

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سروس آف پاکستان میں معاون خصوصی بھی شامل ہے جس پر وکیل نے کہا کہ سروس آف پاکستان میں معاون خصوصی شامل نہیں۔

وکیل نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 93 کے مطابق صرف 5 مشیر تعینات کیے جاسکتے ہیں، معاون خصوصی کی تعیناتی آرٹیکل 99 کی خلاف وزری ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ یہ ساری باتیں ہائیکورٹ میں کر چکے ہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی برطرفی کے لیے دائر اپیل خارج کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل خارج کرنے کی وجوہات فیصلے میں جاری کی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کے معاونین و مشیروں کا تقرر سپریم کورٹ میں چیلنج

خیال رہے کہ عدالت عظمی میں جن لوگوں کے تقرر کو چیلنج کیا گیا تھا ان میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبد الرزاق داؤد، معاون خصوصی برائے پاور ڈویژن شہزاد قاسم، معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری،معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل، معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف اور معاون خصوصی برائے پارلیمانی رابطہ ندیم افضل گوندل شامل ہیں۔

درخواست میں حیرت کا اظہار کیا تھا گیا کہ جب اتنے دشمن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کوئی غیر ملکی شہریوں سے قومی سلامتی، معیشت، ڈیجیٹلائزیشن اور منصوبہ بندی، مستقبل کے امکانات، سیاسی اور پارلیمانی امور سے متعلق امور پر غیر جانبدارانہ اور ایماندارانہ مشورے کی توقع کیسے کرسکتا ہے۔

اس اپیل میں ایسے افراد میں حساس معلومات کی مبینہ چوری کو جانچنے کے لیے وضع کردہ میکانزم پر سوال اٹھایا گیا تھا جنہوں نے دوسرے ممالک سے تابعداری کا حلف لیا ہوا ہے اور انہیں ملک کے جوہری اثاثوں کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی و معیشت کے حوالے سے بھی حساس معلومات تک رسائی حاصل ہے۔

درخواست میں دلائل دیئے گئے تھے کہ ان غیر ملکی شہریوں کے تقرر بھی وزیر اعظم کے اپنے عہدے کے لیے اٹھائے گئے حلف کے خلاف ہے جس میں پاکستان کے ساتھ وفاداری کا تصور دیا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ حساس معلومات کو محفوظ بنانے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو اہم عہدوں سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم ریاست کے ایک اہم ترین ستون کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور انہیں متعدد / پیچیدہ فرائض انجام دینا پڑتے ہیں اور آئین کے تحت بیان کردہ وزیر اعظم کا کردار وہ اکیلے نہیں ادا کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کو ریاست کے ایگزیکٹو کا کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے انہیں عہدیداروں یا دیگر افراد کی مدد کے لیے تقرر کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے، خصوصی معاونین کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ہے جو وزیر اعظم تعینات کرسکتے ہیں'۔

ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ 'دوہری شہریت رکھنے والے افراد کے تقرر پر کوئی پابندی نہیں ہے، آئین میں فراہم کردہ واحد پابندی آرٹیکل 63 (1) (سی) کے تحت ہے اور یہ پارلیمٹ میں منتخب ہونے والے یا منتخب کردہ افراد کی نااہلی تک محدود ہے'۔

عدالت کے مطابق 'پاکستان کے شہری کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے، جو شخص دوہری شہریت کا حامل ہے وہ واقعتا پاکستان کا شہری ہے اور اس طرح اس کی پاکستان اور حب الوطنی سے وابستگی پر شک نہیں کیا جاسکتا'۔

تبصرے (0) بند ہیں