مسلمانوں میں کورونا ویکسین کے حلال یا حرام ہونے سے متعلق تحفظات

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2020
کچھ کمپنیاں کئی سالوں سے پورک سے پاک ویکسینز بنانے کے لیے کام کررہی ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
کچھ کمپنیاں کئی سالوں سے پورک سے پاک ویکسینز بنانے کے لیے کام کررہی ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

اکتوبر میں انڈونیشیا کے سفیروں اور مذہبی رہنماؤں کا ایک گروپ طیارے کے ذریعے چین میں اترا جس میں سفارتکاروں کی موجودگی کا مقصد انڈونیشیا کے شہریوں کے لیے ویکسین کی لاکھوں خوراک کی ڈیل کو حتمی شکل دینا تھا جبکہ مذہبی رہنما یہ جائزہ لینے کے لیے گئے تھے کہ کیا کووِڈ 19 کی ویکسین اسلامی قوانین کے تحت جائز ہے۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق جہاں ایک جانب متعدد کمپنیوں کی جانب سے کووِڈ 19 کی ویکسین بنانے اور ممالک کی جانب سے ان کی خوراکیں حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہے وہیں اس میں خنزیر کے گوشت (پورک) سے بنی مصنوعات کے استعمال کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں جو بہت سے مذہبی گروہوں کے لیے ناجائز ہے اور اس سے مدافعتی مہم متاثر ہونے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ ویکسین کی نقل و حمل اور اسٹور کرنے کے دوران اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسٹیبلائزر کے طور پر بڑے پیمانے پر خنزیر کے گوشت سے بننے والے جیلاٹن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیلنے کا انکشاف

تاہم کچھ کمپنیاں کئی سالوں سے پورک سے پاک ویکسینز بنانے کے لیے کام کررہی ہیں جس میں سوئٹزرلینڈ کی ادویہ ساز کمپنی نوارٹس نے گردن توڑ بخار کی پورک سے پاک ویکسین تیار کرلی ہے جبکہ سعودی عرب اور ملائیشیا سے تعلق رکھنے والی کمپنی 'اے جے فارما' اپنی خود کی ویکسین پر کام کررہی ہے۔

اس ضمن میں برطانوی اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سلمان وقار نے کہا کہ پورک سے اخذ شدہ جیلاٹن سے پاک ویکسین کی طلب، موجودہ فراہمی کے سلسلے، لاگت اور مختصر شیلف لائف کا مطلب یہ ہے کہ یہ جز کئی سالوں تک زیادہ تر ویکسین میں استعمال کیا جاتا رہے گا۔

فائزر، موڈرینا اور آسٹرازینیکا کے ترجمانوں کا کہنا تھا کہ ان کی کووِڈ 19 ویکسین میں خنزیر کی مصنوعات شامل نہیں ہیں۔

تاہم محدود فراہمی اور دیگر کمپینوں کے ساتھ لاکھوں ڈالر کے پہلے سے کیے سودوں کا مطلب یہ ہے کہ بڑی مسلم آبادی والے چند ممالک مثلاً انڈونیشیا کو وہ ویکسینز موصول ہوں گی جس کے جیلاٹن سے پاک ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں چینی کووڈ 19 ویکسین کا ٹرائل رواں ماہ ہی مکمل ہونے کا امکان

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے مذہبی طبقات کو ایک مخمصے کا سامنا ہے جس میں قدامت پسند یہودی اور مسلمان شامل ہیں کیوں کہ دونوں کے ہاں خنزیر سے بنی مصنوعات کھانا ناجائز ہے تو یہ پابندی دواؤں پر کس طرح عائد ہوگی۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف سڈنی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہارون رشید نے کہا کہ ویکسین میں پورک جیلاٹن کے استعمال پر ماضی میں ہونے والی بحث میں اکثریت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ اسلامی قانون کے تحت جائز ہے کیوں کہ اگر ویکسین نہ استعمال کی گئی تو 'بہت بڑا نقصان' ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب قدامت پسند یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں کے وسیع اتفاق رائے سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔

اس طرح کا معاملہ 2018 میں انڈونیشیا میں اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب انڈونیشیئن علما کونسل نے فتویٰ دیا تھا کہ جیلاٹن کی وجہ سے خسرہ اور روبیلا کی ویکسین حرام یا ناجائز ہیں اور مذہبی رہنماؤں نے والدین پر زور دیا تھا کہ اپنے بچوں کو یہ ویکسین نہ پلائیں۔

یہ بھی پڑھیں: چینی ویکسین کورونا سے بچاؤ میں 86 فیصد تک موثر قرار

ہیلتھ کیئر مارکیٹ ریسرچ گروپ ریسرچ پارٹنر شپ کے ڈائریکٹر راچیل ہوارڈ نے بتایا کہ 'اس کے بعد خسرہ کے کیسز میں اتنا اضافہ ہوا کہ دنیا بھر میں خسرہ کی تیسری سب سے بلند شرح انڈونیشیا میں ہوگئی تھی'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس صورتحال کے بعد مذہی رہنماؤں نے ایک اور فتویٰ جاری کیا جس میں ویکسین کو جائز قرار دے دیا گیا لیکن ثقافتی طور پر ممنوع سمجھے جانے کی وجہ سے ویکسینیشن کی شرح اب بھی کم ہے۔

انڈونیشیا کی حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ کووِڈ 19 کی ویکسین کی خریداری اور تصدیق کے عمل میں مسلمان مذہبی رہنماؤں کو شامل کرے گی۔

چنانچہ جب انڈونیشیا کے حکام چین میں تھے تو ان کے مذہبی رہنماؤں نے چین کی سائینوویک بائیوٹیک کا معائنہ کیا تھا اور اس کمپنی کے لیے تقریباً ایک ہزار 620 رضاکاروں پر ویکسین کے ٹرائلز بھی انڈونیشیا میں جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: ایشیا میں 2021 کے اختتام تک کورونا ویکسین پہنچنے کا امکان، ڈبلیو ایچ او

ویکسین کے اجزا کے بارے میں 'اے پی' نے کورونا کی ویکسین کے آخری ٹرائلز کرنے والی چینی کمپنیوں سائنوویک بائیوٹیک، سائنو فارم اور کین سائنو بائیولوجکس سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

چین میں اب تک کسی کورونا ویکسین کو مارکیٹ کے لیے حتمی منظوری نہیں دی گئی ہے لیکن زیادہ خطرات کا شکار 10 لاکھ ہیلتھ ورکرز اور دیگر افراد کو ہنگامی استعمال کی منظوری کے تحت ویکسین دی جاچکی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں بھی کین سائنو بائیولوجکس ویکسین کے آخری مرحلے کے کلینکل ٹرائلز جاری ہیں جبکہ بنگلہ دیش نے بھی اسی کمپنی کے ساتھ کلینکل ٹرائلز کا معاہدہ کیا تھا جو فنڈنگ کے تنازع کے باعث تاخیر کا شکار ہوا اور ان دونوں ممالک میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں