سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم بچوں کو پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے متاثر کرسکتی ہے۔

اس حوالے سے اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم بچوں میں دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

ماہرین کی جانب سے وائرس کی نئی قسم کے بارے میں جاننے کے لیے تیزرفتاری سے کام کیا جارہا ہے تاکہ مریضوں اور ویکسینز پر اس کے اثرات کا تعین کیا جاسکے۔

برطانیہ کے امپرئیل کالج لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساؤتھ ایسٹ لندن میں اس نئی قسم کے کیسز کا ڈیٹا دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر اقسام کے مقابلے میں یہ بچوں کو زیادہ بیمار کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسا اشارہ ملتا ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم بچوں کو زیادہ متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس حوالے سے وضاحت کرنا تو ابھی ممکن نہیں، مگر ڈیٹا میں ہم نے ایسا دیکھا'۔

ان کا کہنا تھا 'برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے دوران، ہم نے بچوں میں وائرس کے حوالےسے عمر کی تقسیم کو دیکھا تھا، یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بالغ افراد کی سرگرمیاں محدود کی گئی ہیں مگر تعلیمی ادارے ابھی کھلے ہیں، ہم نے 5 یا 6 ہفتوں کے دوران 15 سال سے کم عمر بچوں میں اس نئی قسم کے تسلسل کو دیکھا ہے'۔

ان کے بقول 'ہم اس حوالے سے تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں، ابھی تو یہ خیال ہے کیونکہ ابھی کچھ ثابت نہیں ہوا، تاہم یہ درست ہوا تو اس سے بچوں میں کیسز کے اضافے کی وضاحت ہوسکے گی'۔

برطانوی حکومت کے نیو اینڈ ایمرجنگ ریسیپٹری وائرس تھریٹ ایڈوائزری گروپ کی رکن پروفیسر وینڈی بارسلے نے بتایا 'ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم بالخصوص بچوں کو ہدف بنارہی ہے یا اس میں بچوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے، مگر ہم وبا کے آغاز سے جانتے ہیں کہ کورونا وائرس بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کو متاثر کرنے میں زیادہ مؤثر نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ایک خیال یہ ہے کہ نئی قسم بچوں میں ان خلیات کو متاثر کرنے میں زیادہ کامیاب ثابت ہورہی ہے، جس میں پرانی اقسام کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہوربے نے کہا کہ ڈیٹا کے ابتدائی تجزیے کے بعد سائنسدان وائرس کی نئی قسم کے خطرات کے حوالے سے زیادہ پراعتماد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 21 دسمبر کی سہ پہر ایک درجن سے زیادہ سائنسدانوں نے ملاقات کی، ہم نے تمام ڈیٹا کا ایک بار پھر تجزیہ کیا، ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ پھیلاؤ کے معاملے میں سبقت رکھتی ہے۔

سائنسدانوں کی جانب سے اس نئی قسم پر تحقیق کرکے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مجوزہ ویکسینز اس کی روک تھام میں کس حد تک مؤثر ہوں گی۔

پروفیسر وینڈی بارسلے نے اس سلسلے میں کہا 'ہم اس حوالے سے مکمل پراعتماد نہیں اور اس کو جاننے کے لیے ہم نے برق رفتاری سے کچھ تجزیے کیے ہیں، اس کا براہ راست ذریعہ ویکسین استعمال کرنے والوں میں اینٹی باڈیز کی شرح کو دیکھنا ہے، اس حوالے سے کام برطانیہ بھر میں متعدد لیبارٹریز میں جاری ہے، جن کے نتائج سے معلوم ہوگا کہ نئی قسم کے حوالے سے ویکسینز کس حد تک مؤثر ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں