موٹروے گینگ ریپ کیس: ملزمان کے ریمانڈ میں 18 جنوری تک توسیع

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2021
ملزم عابد ملہی کو اکتوبر میں گرفتار کیا گیا تھا —فائل/فوٹو: ڈان نیوز
ملزم عابد ملہی کو اکتوبر میں گرفتار کیا گیا تھا —فائل/فوٹو: ڈان نیوز

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں موٹروے گینگ ریپ کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے چالان پیش نہ ہوسکا جبکہ عدالت نے مرکزی ملزمان کے ریمانڈ میں 18 جنوری تک توسیع کردی۔

جیل حکام نے مرکزی ملزم عابد ملہی اور شفقت بگا کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا جہاں تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ابھی تک چالان مکمل نہیں ہو سکا۔

مزید پڑھیں: لاہور: موٹروے گینگ ریپ کے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 4 جنوری تک توسیع

تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ چالان مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت دی جائے، جس پر جج نے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 جنوری تک توسیع کردی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پولیس کو ملزمان کے خلاف چالان مکمل کر کے جلد دائر کرنے کا حکم دیا۔

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2020 کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے موٹروے گینگ ریپ کیس کی سماعت کی تھی اور دونوں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا تھا اور تفتیشی افسر نے چالان مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت مانگی تھی جس پر 4 جنوری تک جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر دی گئی تھی۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عابد ملہی کا پولی گرافک ٹیسٹ کر لیا گیا ہے اور ایک مرتبہ پھر ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا گیا ور بیانات بھی قلم بند کیے جا چکے ہیں۔

تفتیشی افسر ذوالفقار چیمہ نے ملزمان کے مزید 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزمان کا چالان داخل کرنے تک مزید ریمانڈ درکار ہے، تاہم عدالت نے ریمانڈ میں 10 روز تک توسیع کی منظوری دی تھی۔

اس سے قبل عدالت نے 17 نومبر کو ملزمان کا 15 روزہ جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر سماعت کی تھی جہاں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، تفتیشی افسر کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 روزہ توسیع کر دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے زیادتی کیس: ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ اور دوبارہ ڈی این اے کیا گیا، اس کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے اور مزید تفتیش کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے مرکزی ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے اور دوبارہ یکم دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

موٹروے ریپ کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتہ دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تو 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

بعد ازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: ملزم شفقت 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

گینگ ریپ کے واقعے کے ملزمان کی نشاندہی کے چند روز بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب انعام غنی نے کیس کی تحقیقات میں پیشرفت سے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ 'عابد علی بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس کا رہائشی ہے، ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران عابد اور اس کی بیوی کھیتوں میں فرار ہوگئے، اس کی بچی ہمیں ملی ہے'۔

چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔

پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی۔

تبصرے (0) بند ہیں