قیدیوں کے جیل توڑنے کر فرار ہونے کے واقعات تو سامنے آتے رہتے ہیں مگر کوئی بھی اتنا دنگ کردینے والا نہیں ہوسکتا جو لگ بھگ 6 دہائیوں قبل پیش آیا تھا۔

درحقیقت اس واقعے کے ہر دور کا سب سے بے خوف اور خطرناک ترین جیل توڑنے کا واقعہ مانا جاتا ہے، کیونکہ وہ قیدی ایسی جیل سے فرار ہوئے، جو ایک جزیرے میں تھی اور وہاں سے کنارے تک پہنچنے کے لیے 2 کلومیٹر کا فاصلہ تیر کر طے کرنا تھا جو بالکل بھی آسان نہیں۔

مزید پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر

یہ واقعہ امریکی شہر سان فرانسسکو کے ساحلی علاقے سے 2 کلو میٹر دور ایک جزیرے میں واقع آلکیٹرز جیل میں 1962 میں پیش آیا تھا۔

وہ جیل جہاں سے کوئی بھی بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا، بلکہ کوشش کرنے والے زیادہ تر افراد پکڑے گئے یا مارے گئے۔

وہ کیسے فرار ہوئے؟

یہ جیل امریکا کی سب سے زیادہ سیکیورٹی والی جیل تھی، مگر حیران کن طور پر جون 1962 کو 3 قیدی فرینک مورس، جان انگلین اور کلیرنس انگلین وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور پھر کبھی ان کا نام و نشان نہیں مل سکا۔

درحقیقت یہ 3 نہیں 4 تھے مگر چوتھا اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ فرار کی منصوبہ بندی 1961 کے آخر میں بنائی گئئی تھی اور کئی ماہ تک وہ چمچوں کے ذریعے دیوار میں سرنگ بناتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں : اس 'آسیب زدہ' ٹرین کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے؟

فرار کی رات بس ایک بات غلط ہوئی اور وہ ان کے چوتھے ساتھی کے کمرے کا وینٹ کھلنے میں مشکل تھی اور اسے اپنا ارادہ منسوخ کرنا پڑا، اسی سے تفتیش کاروں کو فرار کی متعدد تفصیلات حاصل ہوئیں۔

انہوں نے چمچوں کی دھار کو جیل کی دیواروں پر استعمال کرکے اس میں جگہ بنائی جبکہ اپنے کمروں میں کاغذ سے بنی ڈمیوں کو چھوڑا، 12 فٹ کی 2 خاردار تاروں والی دیواروں کو پھلانگا اور شمال مشرقی کنارے والے حصے میں پہنچے۔

وہاں انہوں نے 50 رین کوٹ کے مجموعے سے بنے رافٹ کو پھلایا اور رات 10 بجے گہری دھند میں پانی میں چلے گئے۔

اس کے بعد وہ کبھی کسی کو نظر نہیں آئے، جبکہ 1963 میں جیل کو ختم کرکے سیاحتی مقام بنادیا گیا، جہاں آج بھی وہ کمرا سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہے، جہاں سے یہ قیدی فرار ہوئے۔

یہ جیل اب سیاحتی مقام ہے، اے پی فوٹو
یہ جیل اب سیاحتی مقام ہے، اے پی فوٹو

نیویاک ٹائمز کے مطابق فرینک مورس ہی اس فرار کے ماسٹر مانٹر اور بہت زیادہ ذہین انسان تھا، جس کا آی کیو لیول 133 تھا۔

وہ ڈکیتی کے جرم میں 14 سال قید کی سزا پر اس جیل میں آیا تھا، جبکہ جان اور کلیرنگ انگلین دونوں بھائی تھی، وہ بھی ڈکیتیوں پر 15 اور 10 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

تو اس میں خاص کیا ہے؟

فوٹو بشکریہ ایف بی آئی
فوٹو بشکریہ ایف بی آئی

درحقیقت جیل سے فرار ہونا تو ایسا خاص نہیں مگر اس کے بعد جو ہوا وہ دہائیوں سے تاریخ دانوں کے ذہنوں کو چکرا رہا ہے۔

ان مفرور قیدیوں کو پھر کبھی تلاش نہیں کیا جاسکا، بلکہ کوئی سراغ بھی نہیں مل سکا، جس کے باعث متعدد افراد حیران ہیں کہ وہ سان فرانسسکو کے متلاطم پانیوں میں ڈوب کر گم ہوگئے یا زندہ کنارے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

یہ بھی دیکھیں : وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا

لگ بھگ 6 دہائیوں تک امریکی تفتیش کاروں نے ان خوش قسمت/بدقسمت قیدیوں کے فرار کے نتیجے پر خاموشی اختیار کیے رکھی، یہاں تک کہ ایف بی آئی نے 1979 میں کیس کو اس نتیجے کے ساتھ بند کیا کہ یہ قیدی پانی میں بچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

مگر یو ایس مارشلز سروس نے تاحال ان مفرور قیدیوں کو مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کررکھا ہے، ان کے حوالے سے نئے واقعاتی شواہد بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

جب فرار کے بعد اگلے دن ان کی تلاش شروع ہوئی تو رین کوٹ رافٹ کے باقیات اور پیڈلز کو اینجل آئی لینڈ میں دریافت کیا گیا، جو آلکیٹرز کے شمال میں 2 میل دور تھا، جبکہ ایک پلاسٹک بیگ کو بھی دریافت کیا گیا جس میں انگلین برادران کا ذاتی سامان تھا، جس کے بعد حکام کا ماننا تھا کہ وہ تینوں ڈوب گئے ہیں۔

اسی طرح حکام کے مطابق اس رات اس جگہ سے قریب کوئی ڈکیتی یا گاڑی چھیننے کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔

تو اب تک معمہ کیوں بنا ہوا ہے؟

فوٹو بشکریہ ہسٹری چینیل
فوٹو بشکریہ ہسٹری چینیل

2003 میں ڈسکوری چینیل کے ایک پروگرام میں دیکھا گیا تھا کہ اس طرح فرار ہونے کا امکان کتنا ہے اور دریافت کیا کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔

اسی طرح 2011 میں نیشنل جیوگرافک کے ایک پروگرام میں پیروں کے ایسے نشانات کو دکھایا گیا جو اس رافٹ سے دور جارہے تھے جبکہ اس وقت کے حکام کے بیانات کے برعکس انہوں نے دریافت کیا کہ فرار کی رات ایک گاڑی اس علاقے میں ایک گاڑی کو چرایا گیا تھا۔

مگر 2018 میں سی بی ایس سان فرانسسکو نے ایک ایسے خط کو شائع کیا جو مبینہ طور پر جان انگلین نے 2013 کو تحریر کیا تھا۔

یہ بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے

اس خط میں لکھا تھا 'میرا نام جان انگلین ہے، میں جیل سے جون 1962 کو اپنے بھائی کلیرنس اور جان مورس کے ساتھ فرار ہوا تھا، میں اب 83 سال کا ہو اور کینسر کا شکار ہوں، ہاں اس رات ہم سب بمشکل بچ گئے تھے'۔

یہ خط 2013 میں سان فرانسسکو پولیس کو بھیجا گیا تھا مگر اسے تحقیقات کے لیے خفیہ رکھا گیا تھا۔

ایف بی آئی کی لیبارٹری میں اس پر انگلیوں کے نشانات اور ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا جبکہ لکھائی کا موازنہ بھی کیا گیا مگر کوی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

رپورٹ میں ایک سیکیورٹی تجزیہ کار نے کہا تھا 'تو اس کا مطلب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی، یعنی کچھ بھی واضح نہیں'۔

اس خط میں بتایا گیا تھا کہ باقی دونوں مجرم 2005 اور 2008 کو ہلاک ہوگئے تھے جبکہ جان نے پیشکش کی تھی کہ اگر حکام کی جانب سے ٹی وی اعلان کیا جائے کہ اسے صرف ایک سال قید کی سزا دی جائے گی، جس میں علاج بھی شامل ہوگا تو میں بتاؤں گا کہ میں کہاں ہوں، یہ کوئی مذاق نہیں۔

مگر ایف بی آئی نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ خط کو ہی چھپالیا۔

2015 میں ہسٹری چینل نے دونوں بھائیوں کی ایک مبینہ تصویر جاری کی تھی جو ان کے فرار کے 13 سال بعد برازیل میں لی گی تھی۔

جان اور کلیرنس کے ایک بھانجے ڈیوڈ وایڈنر نے سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری نانی کو ان کے فرار بعد برسوں تک گلاب ملتے رہے۔

اگر جان انگلین اب بھی زندہ ہوگا تو اس کی عمر 90 سال کے قریب ہوگی، مگر اس خط کے بعد اس کے بارے میں کچھ سامنے نہیں آیا۔

مگر حکام نے ان سب واقعاتی شواہد کو افواہیں وققرار دیا اور سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے یو ایس مارشلز کے تفتیش کاروں نے کہا کہ ان سب کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ خط ایک افواہ ہے جو کسی نے دھوکے کے مقصد سے تیار کیا تاکہ وفاقی اور مقامی انتظامیہ کو شرمندہ کرسکے۔

ویسے یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا تھا کہ 1979 میں اس پر ایک فلم اسکیپ فراہم آلیکٹرز بھی بنائی گئی تھی جس میں کلنٹ ایسٹ ووڈ نے فرینک مورس کا کردار ادا کیا۔

یہ فلم اسی نام سے 1963 میں شائع ہونے والی کتاب پر مبنی تھی۔

اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ یہ قیدی اپنے منصوبے میں کامیاب رہے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں