دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر (آئی او او جے کے) کے دہلی میں مقیم سفارتکاروں کے ایک گروپ کے حالیہ دورے کے بارے میں بھارتی وزارت خارجہ کے مؤقف کو مسترد کرتا ہے۔

دفتر خارجہ سے جاری اعلامیے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں اس طرح کے دوروں اور چند منتخب لوگوں سے ملاقاتیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات سے عالمی توجہ نہیں ہٹائی جاسکتی۔

مزید پڑھیں: بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دفتر خارجہ

زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے اقلیتی مسائل اور مذہبی عقیدے نے اس دورے کے اختتامی روز خطے کی مقبوضہ کشمیر کی آبادی میں تبدیل اور اقلیتوں کے ان کے انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق بیان دے کر بھارتی عزائم کو اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقوضہ کشمیر میں کوئی بھی انتخابی مشق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کی جانے والی رائے شماری کی جگہ نہیں لے سکتی۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت مسلسل فوجی محاصرے اور کشمیری عوام کی بنیادی آزادیوں پر پابندیوں کے ساتھ بھی ’معمول کی بات نہیں‘ کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

مزیدپڑھیں: دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر کے دہشت گردی سے متعلق الزامات مسترد کردیے

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزاد نقل و حرکت، اظہار رائے کی آزادی اور حتی کہ جان و مال کی حفاظت تک کے حقوق کے معمول کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ سیکڑوں ہزاروں کشمیریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے جبکہ 'جامع ترقی' کی باتیں فرضی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نام نہاد ’ترقی‘ کا بیانیہ عالمی برادری کو بھی گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

بھارت وادی میں صورتحال معمول پر آنے کے بارے میں تاثر دینے کے لیے یورپی اور خلیجی ممالک کے سفارتکاروں کے ایک گروپ کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں 17 اور 18 فروری کو لے کر گیا جو اگست 2019 میں اس خطے کی خود مختاری چھیننے کے بعد غیر معمولی پابندیوں کا شکار ہے۔

مزیدپڑھیں: ہندوستان خطے میں ریاستی دہشت گردی کا مرکز ہے، دفتر خارجہ

یہ دورہ مقبوضہ کشمیر میں 18 ماہ کی طویل پابندی کے بعد 4 جی انٹرنیٹ سروسز کی بحالی کے بعد ہوا۔

5 اگست کے بھارت کے غیر قانونی اقدام کے بعد غیر ملکی سفارتکاروں کا یہ تیسرا ایسا دورہ تھا۔

ان دوروں کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں اور صورتحال کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔

اس سے قبل دو دورے گزشتہ سال جنوری اور فروری میں ہوئے تھے۔

ان دوروں کے دوران سفارت کاروں کو سرکاری عہدیداروں، سیکیورٹی اہلکاروں اور بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامیوں سے ملنا پڑتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں