کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ایک ایسی ویکسین کی تیاری پر کام شروع ہونے والا ہے جس کے لیے انجیکشن کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ گولی کی شکل میں جسم کے اندر پہنچائی جاسکے گی۔

اوراویکس نامی کمپنی کی جانب سے اس ویکسین کے انسانوں پر پہلے مرحلے کے ٹرائل کا آغاز رواں سال ہوگا۔

کمپنی کی جانب سے اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ کلینیکل ٹرائل کا آغاز جون میں ہوجائے گا۔

منہ کے ذریعے جسم کے اندر پہنچائی جانے والی ویکسین کو سیکنڈ جنریشن ویکسینز کا حصہ قرار دیا جارہا ہے، جو زیادہ بڑے پیمانے پر تیار ہوسکے گی جبکہ اس کی تقسیم اور استعمال آسان ہوگا۔

ٹرائل کے بعد ویکسین کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور اگر یہ کارآمد ثابت ہوئی تو بھی منظوری کے لیے ایک سال تک کا عرصہ درکار ہوگا۔

کمپنی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس طرح کی ویکسین کو لوگ گھروں میں رہ کر بھی استعمال کرسکیں گے۔

بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کو عام فریج میں ایک سے دوسرے ملک بھیجا جاسکے گا اور کمرے کے درجہ حرارت میں محفوظ کرنا ممکن ہوگا، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کہیں بھی اس کی سپلائی آسان ہوگی۔

ایسٹ اینجیلا یونیورسٹی کے میڈیسین پروفیسر پال ہنٹر نے اس حوالے سے کہا کہ ہمیں درست طریقے سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ثابت ہوسکے کہ منہ سے دی جانے والی ویکسین کارآمد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مگر اس طرح کی ویکسین ان افراد کے لیے اہم ہوسکتی ہے جو انجیکشن کی سوئی سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور ان کی برق رفتاری سے مہم بھی زیادہ آسان ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی ویکسین بازو میں انجیکٹ کرنے والی ویکسینز کے مقابلے میں دیگر فوائد بھی فراہم کرسکے گی۔

ان کے بقول 'انجیکٹ کی جانے والی ویکسینز عموماً سنگین بیماری کی روک تھام میں بہترین ہوتی ہیں مگر اکثر بیمار ہونے سے بچانے کے لیے بہترین نہیں ہوتیں'۔

عام طور پر بیماری ناک اور حلق کو نشانہ بناتی ہے ، مگر ویکسین میں مختلف حصوں میں بیماری کو روکنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

اس اورل ویکسین کے جانوروں پر نتائج اب تک شائع نہیں ہوئے مگر کمپنی نے ان کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے تاہم انسانوں پر نتائج ویسے برقرار رہتے ہیں، یہ ابھی کہنا ممکن نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں