ہزاروں سال قبل جب دنیا بھر میں رقوم کے لیے سکوں یا اشرفیوں کااستعمال ہوتا تھا تو چین نے کاغذ کی کرنسی کو ایجاد کیا۔

اب چین دنیا کا پہلا بڑا ملک بننے والا ہے جہاں کی حکومت ڈیجیٹل کرنسی کو متعارف کرانے والی ہے جو مرکزی بینک کنٹرول کرے گا اور اس طرح وہ دنیا میں امریکی معاشی بالادستی ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق کریڈٹ کارڈز اور پیمنٹ ایپس کی بدولت رقوم کے معاملات کسی حد تک ورچوئل ہوچکے ہیں، مگر چین اپنی توجہ ڈیجیٹل کرنسی کی جانب مرکوز کررہا ہے۔

کرپٹو کرنسیاں جیسے بٹ کوائن نے نقد رقم کے ڈیجیٹل مستقبل کی جانب نشاندہی کی ہے مگر یہ تمام ڈیجیٹل کرنسیاں روایتی عالمی مالیاتی نظام کا حصہ نہیںن اور نہ ہی انہیں حکومتوں کی جانب سے قانونی حمایت حاصل ہے۔

چین ایسی ڈیجیٹل کرنسی کا تصور رکھتا ہے جسے اس کا مرکزی بیک کنٹرول کرے گا یعنی نئی الیکٹرونک کرنسی کا اجرا کرے گا۔

ڈیجیٹل یوآن کی بدولت چینی حکومت بٹ کوائن کی کشش کاباعث بننے والے ایک اہم عنصر کی روک تھام بھی کرے گا، یعنی صارف کا گمنام ہونا۔

دنیابھر میں مرکزی بینکوں بشمول پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسیوں کی تیاری پر غور کیا جارہا ہے جو مقامی اور بین الاقوامی ادائیگیوں کا عمل تیز کریں گی اور اس کے ساتھ ساتھ سستی بھی ہوں گی۔

ڈیجیٹل یوآن سے چینی حکومت کو رئیل ٹائم میں لوگوں کے اخراجات کو جاننے میں مدد ملے گی جبکہ یہ دولت اس عالمی مالیاتی نظام سے منسلک نہیں ہوگی جس میں ڈالر کو بالادستی حاصل ہے، جس سے امریکی طاقت کے ستون کو ہلانا ممکن ہوسکے گا۔

پی بی او سی کی جانب سے ڈیجیٹل یوآن پروگرام پر 2014 سے کام کیا جارہا ہے، یعنی اس وقت سے جب چین میں بٹ کوائن نے لوگوں کی توجہ حاصل کی تھی۔

ڈیجیٹل یوآن کو کاغذی نوٹوں کے متبادل کے طور پر ڈیزائن کیا جارہا ہے اور یہ بینک اکاؤنٹس میں طویل المعیاد بنیادوں پر ڈپازٹ رقوم کا متبادل نہیں۔

کمرشل بینکوں کی جانب سے صارفین میں ڈیجیٹل کرنسی کی تقسیم میں کردار ادا کیا جائے گا اور اس کے عوض انہیں اتنی ہی رقم اپنے ذخائر میں جمع کرانا ہوگی۔

تاہم ڈیجیٹل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن کے برعکس ڈیجیٹل یوآن میں بلاک چین کو استعمال نہیں کیا جائے گا اور اسے لیجر ٹیکنالوجی کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔

چین عرصے سے اپنی کرنسی کو عالمی سطح پر ڈالر کے متبادل کے طور پر پیش کرنا چچاہتا ہے اور ڈیجیٹل یوآن سے ممکنہ طور پر اس مقصد میں مدد مل سکے گی جبکہ دیگر ممالک کے صارفین کو بھی یوآن کے استعمال کے لیے تیار کرنا ممکن ہوسکے گا۔

اس وقت امریکا کی جانب سے بھی ڈیجیٹل ڈالر پر غور کیا جارہا ہے تاہم ایسا کب تک ہوگا کچھ کہنا مشکل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں