شہروز کاشف ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے والے کمر عمر ترین پاکستانی

اپ ڈیٹ 11 مئ 2021
19 سالہ کوہ پیما نے آج صبح بلند ترین چوٹی سر کی—فوٹو: شہروز کاشف فیس بک
19 سالہ کوہ پیما نے آج صبح بلند ترین چوٹی سر کی—فوٹو: شہروز کاشف فیس بک

19 سالہ شہروز کاشف دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ (8848.86 میٹرز بلند) سَر کرنے والے کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما بن گئے۔

سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ فیس بک پر کئی گئی ایک پوسٹ میں نیپالی کوہ پیما اور سیون سمٹ ٹریکس مہم جوئی کے منیجر چھانگ داوا شیرپا نے ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے والے کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما بننے پر شہروز کاشف کو مبارکباد دی۔

انہوں نے لکھا کہ 'آج (11 مئی کی) صبح سیون سمٹ ٹریکس کی ایورسٹ مہم جوئی 2021 کے تحت شہروز کاشف نے ماؤنٹ ایورسٹ کو کامیابی سے سَر کرلیا'۔

مزید پڑھیں: ملیے پاکستان کے کم عمر ترین ’کوہِ پیما‘ سے

دوسری جانب شہروز کاشف کے فیس بک پیج پر شیئر کی گئی پوسٹ میں کہا گیا کہ 'الحمداللہ، شہروز کاشف کی جانب سے پیغام موصول ہوا ہے، تاریخ رقم ہوگئی ہے، ماشااللہ شہروز نے ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرلیا ہے'۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے شہروز کاشف 17 برس کی عمر میں پاکستان کی چوتھی بلند ترین چوٹی براڈ پیک (8047 میٹر بلند) سَر کرنے والے کم عمر ترین پاکستان کوہ پیما بھی ہیں۔

انہوں نے براڈ پیک اور ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے لیے مصنوعی آکسیجن کا استعمال کیا۔

17 سال کی عمر میں براڈ پیک سر کرنے کی وجہ سے شہروز کاشف کو 'براڈ بوائے' قرار دیا جاتا ہے۔

ان سے قبل ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بیگ کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما تھیں، جنہوں نے 23 سال کی عمر میں دنیا کی بلند ترین چوٹی سَر کی تھی۔

والد کے ساتھ ایک ٹِرپ پر جانے کے بعد کم عمری ہی میں شہروز کاشف میں کوہ پیمائی کا شوق پیدا ہوا تھا۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں کم عمر ترین کوہ پیما نے کہا تھا کہ پہلے سمٹ سے قبل بلندی پر پہنچنے کا خیال ان کے لیے مسحور کن تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'میں نے جو بھی تصور کیا تھا بلندی پر ویسا کچھ بھی نہیں تھا تاہم جب میں چوٹی پر پہنچا تھا تو مجھے فخر محسوس ہوا تھا کہ میں نے کچھ حاصل کرلیا ہے'۔

شہروز کاشف نیپال کے ایورسٹ بیس کیمپ میں ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران اپنے مداحوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہ کرتے رہے ہیں۔

فروری میں ایک انٹرویو میں انہوں نے کلائمبنگ، فٹنس اور بڑے مقاصد کے حصول کے لیے مالی اخراجات سے متعلق تفصیلی گفتگو کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'کرکٹر اور کوہ پیما کی تربیتی سطح کے مابین کوئی مقابلہ نہیں ہے، کبھی کبھار ہمیں ایک بار میں 26 گھنٹے تک چڑھائی کرنی ہوتی ہے'۔

شہروز کاشف نے کہا تھا کہ 'دنیا میں مضبوط ترین چیز انسانی دماغ ہے، آپ اسے نہیں ہرا سکتے، اگر اونچائی پر آپ کا دماغ کام کرنا بند کردے تو یہ ایک بڑی چیز ہے، آپ کو ایسے حالات کے لیے خود کو تیار کرنا پڑتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں : پاکستانی کوہ پیما 20 گھنٹوں میں افریقہ کی بلند ترین چوٹی سَر کرنے والے پہلے ایشیائی بن گئے

انہوں نے کہا تھا کہ 'کوہ پیمائی سمجھوتا نہیں مانگتی، کوہ پیمائی قربانی مانگتی ہے'۔

شہروز کاشف نے بتایا تھا کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی مہم جوئی میں ان کے ایک کروڑ روپے لگے، جس میں انہیں حکومت یا کسی نجی سیکٹر کی جانب سے کوئی اسپانسر شپ نہیں دی گئی۔

اسی انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ساجد سدپارہ کے ساتھ ایک ٹیم بنانا چاہتے ہیں جو 20 سال کی عمر میں کے ٹو سر کرنے والے کم عمر ترین کوہ پیما ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ ساجد سدپارہ کے ساتھ مل کر 8 ہزار میٹر بلند تمام 14 چوٹیاں سَر کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے اسپانسر شپ کی ضرورت ہوگی۔

شہروز کاشف نے کہا تھا کہ اگر حکومت ہر کرکٹر کو ایک کروڑ روپے دے سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔

انہوں نے 11 سال کی عمر میں 3 ہزار 885 میٹر بلند مکڑا پیک سَر کی تھی اور اس کے بعد موسیٰ کا مصلیٰ سَر کی تھی جو 4 ہزار 80 میٹر بلند ہے۔

اس کے بعد 14 برس کی عمر میں انہوں نے گوندگرو لا کے ٹو بیس کیمپ سر کیا اور 15 سال کی عمر میں خوردو پن پاس ٹریک مکمل کیا تھا۔

شہروز کاشف کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے انہیں مبارکباد دی۔

علاوہ ازیں ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو میں شہروز کے والد نے انہیں 'خاص' قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ اپنے طور پر کوہ پیمائی کررہے ہیں، درحقیت جب وہ ایورسٹ بیس کیمپ گئے تو ہمیں علم ہوا کہ مہم جوئی کے دوران حالات کیسے بدل سکتے ہیں'۔

شہروز کے والد نے کہا کہ ان میں یا ان کے دیگر 3 بیٹوں کو ٹریکنگ یا کوہ پیمائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'شہروز کی پہلی مہم پر میں نے انہیں بلندی تک گائیڈ ساتھ لے جانے کو کہا تھا اور اس کے بعد سے اب تک تمام مہمات پر وہ اپنے طور پر گئے ہیں'۔

شہروز کے والد نے کہا کہ 'اب تک میں نے شہروز کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ان کی کامیابی پر بہت زیادہ ردعمل ملا ہے، محمد علی سدپارہ کے بعد وہ شاید سب سے مقبول پاکستانی کوہ پیما ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Khalid H. Khan May 11, 2021 07:41pm
خراج تحسین