اسرائیلی حملے: فیصل ایدھی کا امدادی ٹیم فلسطین بھیجنے کا فیصلہ

فلسطین میں جاری اسرائیلی حملے دوسرے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں—فائل فوٹو: فیس بک
فلسطین میں جاری اسرائیلی حملے دوسرے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں—فائل فوٹو: فیس بک

معروفی سماجی رہنما عبدالستار ایدھی کے بیٹے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے چیئرمین فیصل ایدھی نے 7 مئی سے فلسطین میں جاری اسرائیلی حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں فلسطین میں امدادی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس حوالے سے فیصل ایدھی نے پاکستان میں واقع فلسطینی سفارتخانے کو خط لکھا ہے اور امدادی ٹیم بھیجنے کی پیشکش کرتے ہوئے ویزا جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔

ڈان نیوز کو موصول خط کی کاپی کے مطابق فلسطینی سفیر کو ارسال کیے گئے خط میں فیصل ایدھی نے کہا کہ عبدالستار ایدھی کے انسانیت کی خدمت کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ہم اس مشکل وقت میں فلسطین کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی غزہ پر پیر کی صبح بھاری بمباری، ’ہسپتالوں تک جاتی تمام سڑکیں تباہ‘

خط میں کہا گیا کہ ہم ہر سطح پر اور خاص طور پر فلسطین کے لوگوں کو خوراک اور طبی امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

فیصل ایدھی نے کہا کہ ہمیں، جنگ، زلزلے، حادثات اور طوفانوں وغیرہ میں امدادی کارروائیاں سرانجام دینے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ہم نے انڈونیشیا میں سونامی، پاکستان اور نیپال میں زلزلے اور لبنان-اسرائیل جنگ کے دوران بھی خدمات سرانجام دی تھیں۔

فیصل ایدھی نے خط میں کہا کہ 'ہمارے پاس رضاکاروں کی ٹیم موجود ہے جن کے پاس امدادی کام کا تجربہ ہے'۔

خط میں کہا گیا کہ 'ابتدائی طور پر ہم اسرائیلی حملوں میں متاثر ہونے والوں کو خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کریں گے'۔

مزید کہا گیا کہ ہماری ٹیم سے فیصل ایدھی، محمد احمد، اقرار الحسن، ناصر عزیز اور فیصل ایدھی کے بیٹے سعد ایدھی فلسطین جانے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل کا اسرائیل پر حملوں، فلسطینیوں کے انخلا کو روکنے پر زور

خط میں مزید کہا گیا کہ ہم آپ سے مذکورہ افراد کے ویزا جاری کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور فلسطین میں امدادی کارروائیاں شروع کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔

فیصل ایدھی نے کہا کہ آپ کا یہ عمل انسانوں اور انسانیت کو بچانے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔

اس حوالے سے فیصل ایدھی نے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں ایدھی فاؤنڈیشن کے نمائندوں کی فلسطینی سفیر سے ملاقات ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فلسطینی سفیر کے مطابق فلسطین میں اس وقت ادویات کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ مصر کے راستے فلسطین جائیں گے۔

خیال رہے کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی حملے دوسرے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں اور غزہ پر پیر کی صبح تازہ حملوں کے نتیجے میں ہسپتالوں تک جانے والی تمام سڑکیں تباہ ہوگئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 24 گھنٹے قبل ہونے والے حملے، جس میں 42 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے، کے مقابلے میں آج ہونے والے حملے زیادہ خطرناک تھے۔

غزہ کی پٹی میں ہفتے بھر سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 58 بچے اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

فلسطین پر اسرائیلی حملے

خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کاررائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 9 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 25 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ سے تقریباً1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں