کووڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ سکتا ہے، جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔

تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کووڈ 19 سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے، جس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا، بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی علامت کے 11 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا، یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی باڈیز بناتے ہیں، جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافتی خلیات بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں، بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔

اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔

اس مقصد کے لیے 77 افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔

پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر 3، تین ماہ کے وقفے سے ایسا کیا گیا۔

تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ نہیں تھی اور صرف 6 کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

محققین نے 18 ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے یا ابتدائی بیماری کو 9 ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔

موازنے کے لیے محققین نے ایسے 11 افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو کبھی کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

توقع کے مطابق کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی، تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے 11 ماہ بعد بھی موجود تھیں۔

کووڈ 19 کے شکار 15 افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود تھے، یہ خلیات 4 ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں موجود تھے۔

تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔

محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس بیماری کے 2 سے 3 ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے، تو ان میں بیماری کے 7 یا 11 ماہ بعد متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا، یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے ہیں، یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت تک ایسا کرتے رہتےہ یں۔

تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے، تاہم اس حوالے سے وہ مزید تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔

ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے، مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط مدافعتی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے، تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں