کورونا وائرس ممکنہ طور پر دماغ پر طویل المعیاد اثرات مرتب کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محروم ہوتے ہیں۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں کورونا وائرس کی وبا سے قبل 40 ہزار افراد کے دماغی امیج ٹیسٹنگ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی۔

2021 میں ان میں سے سیکڑوں افراد کو ایک بار پھر دماغی اسکینز کے لیے مدعو کیا گیا اور 800 نے اسے قبول کرلیا۔

ان میں سے 404 افرد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 394 افراد کے وبا سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز قابل استعمال تھے۔

پہلے اور بعد کے دماغی اسکینز کے موازنے سے کووڈ 19 کے متاثرین کے دماغ کے گرے میٹر (grey matter) کے ان حصوں پر نمایاں اثرات کو دریافت کیا گیا جو سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے دماغ کو منسلک کرتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق نتائج سے دماغ کے بائیں حصے میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں والے حصوں میں نقصانات کو دریافت کیا گیا۔

سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ کی چند عام ترین علامات میں سے ایک ہے اور اب تک کی تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مریضوں میں اس کا دورانیہ 5 ماہ تک بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کی معمولی شدت بھی دماغ کے گرے میٹر کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔

اس کے مقابلے میں بیماری سے محفوظ رہنے والے افراد کے دماغ کے ان حصوں میں کسی قسم کی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

محققین نے کہا کہ اس حوالے سے مید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں میں ہونے والا دماغی نقصان دیگر حصوں تک تو نہیں پہنچتا اور کیا یہ واقعی وائرس کا نتیجہ ہے یا اس کی وجہ کوئی اور ہے۔

اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

اس سے قبل مئی 2021 میں امریکا کی جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ کے مریضوں کے دماغ میں گرے میٹر (gray matter) کا حجم کم ہوسکتا ہے۔

امریکا کی جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اٹلی کے ایک ہسپتال میں کووڈ کے مریضوں کو درپیش دماغی و اعصابی علامات کی جانچ پڑتال کے لیے ہونے والے سی ٹی اسکینز کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں ان مریضوں کے گرے میٹر کے حجم کا تجزیہ کیا گیا جو دماغ کی باہری تہہ میں موجود ہوتا ہے۔

مجموعی طور پر 120 مریضوں کے سی ٹی اسکینز کو تحقیق میں دیکھا گیا جن میں سے 58 کووڈ 19 کے مریض تھے اور دونوں گروپس کے نتائج کا موازنہ کیا گیا۔

کووڈ کے ایسے مریض جن کو آکسیجن کی تھراپی کی ضرورت پڑی ان کے گرے میٹر کا حجم کم ہوگیا۔

گرے میٹر کے حجم میں کمی کو سنگین معذوری سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کے گرے میٹر کے حجم میں کمی آئی ان میں ذہنی ہیجان بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں مریضوں میں چڑچڑاپن بڑھ گیا۔

محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، گرے میٹر کے حجم میں کمی کا سامنا چند دیگر امراض جیسے شیزوفرینیا میں بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ماہرین کو گرے میٹر کے حجم میں کمی سے طویل المعیاد بنیادوں پر مرتب اثرات کا تعین کرنا ہوگا یا علاج کے آپشنز کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ کووڈ بلاواسطہ دماغی حصوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور ممکنہ طور پر بخار یا آکسیجن کی کمی اس کا باعث بنتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں