ٹک ٹاکر دست درازی کیس: زیر حراست 98 افراد کو رہا کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2021
عدالت کے روبرو 98 زیر حراست افراد کو جیل سے لا کر پیش کیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
عدالت کے روبرو 98 زیر حراست افراد کو جیل سے لا کر پیش کیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

لاہور کی ضلعی عدالت نے گریٹر اقبال پارک میں ٹک ٹاکر سے دست درازی کے کیس میں حراست میں لیے گئے 98 افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ حسن سرفراز چیمہ نے کیس پر سماعت کی جس میں عدالت کے روبرو 98 زیر حراست افراد کو جیل سے لا کر پیش کیا گیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان کو گریٹر اقبال پارک میں خاتون سے دست درازی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا اور مجموعی طور پر 104 افراد کو شناخت پریڈ کے لیے جیل بھیجا گیا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ملزمان کو کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا، ملزمان کو جیل بھجوانے سے پہلے کون سے ثبوت لیے گئے؟

یہ بھی پڑھیں:ٹک ٹاکر دست درازی واقعہ: سینئر پولیس افسران معطل، 24 افراد گرفتار

جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ شناخت پریڈ کے دوران 98 ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی، متاثرہ خاتون نے صرف 6 افراد کو شناخت کیا تھا۔

تفتیشی افسر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ شناخت نہیں ہو سکی تو حراست میں لیے گئے ان افراد کو جیل میں رکھنے کا جواز نہیں ہے لہٰذا عدالت انہیں رہا کرنے کا حکم دے۔

بعدازاں عدالت نے حراست میں لیے گئے 98 افراد کو مقدمے سے ڈسچارج کرکے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ یوم آزادی کے موقع پر گریٹر اقبال پارک میں ایک خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ مردوں کے ایک ہجوم کی جانب سے دست درازی اور کپڑے پھاڑنے کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے طوفان مچ گیا تھا۔

بعدازاں پولیس نے حرکت میں آکر 400 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جبکہ اعلیٰ حکام نے بھی نوٹس لے کر فوری کارروائی کا حکم دیا تھا۔

پولیس کی پوری توجہ خواتین سے متعلق سامنے آنے والے واقعات پر ہے، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن

دوسری جانب ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور شارق جمال خان نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ گریٹر اقبال پارک میں پولیس نے 503 افراد کو گرفتار کیا جس میں سے 104 کو شناخت پریڈ کے لیے بھجوایا گیا جو ملزمان بار بار نازیبا حرکات کررہے تھے انہیں پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ کیس ثابت کرنے کے لیے صرف شناخت پریڈ واحد طریقہ نہیں بلکہ مختلف تفتیشی طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں جس میں فرانزیک بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں:خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے کا واقعہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

ان کا کہنا تھا کہ مینار پاکستان کیس میں بھی صرف شناخت پریڈ نہیں کی گئی اور چیزیں بھی ہیں، تفتیش آگے بڑھ رہی ہے اور جو لوگ شناخت ہوئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعے کے بنیادی کردار یہ لوگ تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے علاوہ بھی لوگ ہیں جن سے تفتیش جاری ہے اور واقعے میں جو بھی ملوث ہوا انہیں عدالت کے ذریعے سزا دلوائی جائے گی۔

مزید گرفتاریوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی تفتیش جاری ہے اس لیے اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن جو بنیادی کردار تھے وہ تقریباً تمام ہی گرفتار اور شناخت ہوچکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کے لیے تفتیش جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کے بیانات اور مختلف طریقوں سے ان افراد کو شناخت کیا جارہا ہے جنہوں نے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی اور جو رہ گئے ہیں وہ سب گرفتار کیے جائیں گے۔

چنگچی رکشے میں خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے کیس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 2 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور مزید کام جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے کا واقعہ، وزیراعظم کا آئی جی پنجاب سے رابطہ

شارق خان نے کہا کہ پنجاب اور لاہور پولیس کی پوری توجہ خواتین کے حوالے سے آئے روز سامنے آنے والے واقعات پر ہے اور آئی جی پنجاب انعام غنی نے اس حوالے سے ایک تفصیلی پالیسی بھی جاری کردی ہے جس کا اطلاق پورے صوبے پر ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ 26 اگست کو گڑھی شاہو میں ایک خاتون نے مقدمہ درج کروایا کہ 3 افراد نے نوکری دلوانے کا جھانسا دے کر اس کے ساتھ اسلحے کے روز پر زیادتی کی لیکن دورانِ تفتیش عدالت کے روبرو خاتون نے ایسے کسی واقعے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک خاتون اور ایک مرد نے کسی کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ مقدمہ درج کروانے کا کہا تھا۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ پولیس معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی ہے اور جن افراد نے خاتون سے یہ کام کروایا انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے اور اب قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یکم سمتبر کو گجر پورہ میں ایک خاتون نے مقدمہ درج کروایا تھا کہ ان کی 2 بیٹیاں چک بیگم کوٹ سے اغوا ہوئیں اور کرول بھاٹی کے قریب کارخانے میں لے جا کر ان سے زیادتی کی گئی۔

مزید پڑھیں: مینار پاکستان دست درازی کیس: مزید 10 ملزمان گرفتار، شناختی پریڈ کیلئے جیل بھیج دیا گیا

مقدمے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کیس میں 3 نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن کا میڈیکل ٹیسٹ کروالیا گیا ہے۔

ایک اور مقدمے کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 29 اگست کو ایک خاتون نے مقدمہ درج کروایا تھا کہ ان کے سابق شوہر نے ان کی 12 سالہ بیٹی کے ساتھ زیادتی کی ہے اس کیس میں بھی ملزم گرفتار کیا جاچکا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ واقعات پر خاصہ شور مچا جس میں ایک مقدمہ ایک خاتون کا تھا کہ 2 لڑکوں نے نوکری دلوانے کا جھانسا دے کر اس کے ساتھ زیادتی کی لیکن عدالت کے روبرو اس نے کہا کہ زیادتی نہیں کی جبکہ طبی معائنہ کروانے سے بھی انکار کردیا۔

ڈی آئی جی انویسٹیگیشن نے کہا کہ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں کہ جس میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ خاتون کے ساتھ زیادتی کی گئی لیکن بعد میں کچھ اور بات نکلتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں