اسلام آباد ہائیکورٹ: نیب آرڈیننس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2021
ابتدائی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ
ابتدائی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں حالیہ ترامیم کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں بنیادی زور صوبائی و وفاقی کابینہ، ان کی کمیٹیوں کو دیے جانے والے تحفظ اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے عہدے کی مدت میں توسیع پر دیا گیا ہے۔

چونکہ درخواست گزار نے قومی احتساب آرڈیننس (دوسری ترمیم) 2021 کے اختیارات کو چیلنج کیا تھا لہٰذا درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک موجودہ چیئرمین کام جاری رکھیں گے، فروغ نسیم

سماعت کے دوران درخواست گزار لطیف قریشی کے وکیل جی ایم چوہدری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آرڈیننس کی دفعہ 4 میں تمام حکومتی مشینری کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دفعہ وفاقی اور صوبائی کابینہ، کاروباری برادری، کمیٹیوں یا ذیلی کمیٹیوں کے مشترکہ فیصلے، مشترکہ مفادات کونسل، قومی اقتصادی کونسل، قومی مالیاتی کمیشن، قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی، مرکزی ترقیاتی ورکنگ پارٹی، صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی، محکمہ جاتی ترقیاتی ورکنگ پارٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کرتی ہے۔

آرڈیننس کے مطابق وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکسوں سے متعلق تمام معاملات، دیگر محصولات یا منافع بشمول ریفنڈز، یا ٹیکس سے متعلق خزانے کے نقصان سے ریونیو اور بینکنگ قوانین کے مطابق نمٹا جائے گا اور ان معاملات کو احتساب عدالت سے متعلقہ دائرہ کار کی عدالت کو منتقل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: نئے صدارتی آرڈیننس کے بعد نیب کیسز کی حیثیت غیر یقینی سے دوچار

وکیل کا کہنا تھا کہ ’نیب کا دائرہ کار صرف چپڑاسی تک محدود رہ گیا ہے‘، قانون کی نوعیت امتیازی ہے کیوں کہ یہ مخصوص طبقے کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو آئین کی دفعہ 25 کی روح کے منافی ہے۔

جی ایم چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت غیر معینہ مدت تک کے لیے بڑھائی ہے کیوں کہ قانون میں موجودہ چیئرمین کی مدت ختم ہونے کے بعد نئی تعیناتی کے لیے کوئی حتمی مدت مقرر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت قانون اور دیگر فریقین کے علاوہ سیکریٹری قومی اسمبلی اور سینیٹ کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 15 روز میں رپورٹ طلب کرلی کہ کیا مذکورہ آرڈیننس ایوان میں پیش کیا گیا تھا یا نہیں۔

سلیم مانڈوی والا کی نیب آرڈیننس کے تحت ریلیف کی درخواست

سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کڈنی ہلز ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کردی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس دوسری ترمیم کے بعد یہ معاملہ نیب کے دائرہ کار سے خارج ہوچکا ہے۔

احتساب عدالت کے جج نے محمد بشیر نے ریفرنس کی سماعت کی۔

عدالت نے سلیم مانڈوی والا کی درخواست پر نیب کے پروسیکیوشن ونگ سے جواب طلب کر لیا اور مزید سماعت 3 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں