نور مقدم قتل کیس: ذاکر جعفر کی فرد جرم کے خلاف درخواست واپس لینے پر نمٹادی گئی

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2021
جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی — فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر
جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی — فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواست واپس لینے پر نمٹا دی۔

درخواست گزار ذاکر جعفر کی جانب سے وکیل راجا رضوان عباسی عدالت میں پیش ہوئے اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف دائر درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔

جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تھی لیکن ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔

ذاکر جعفر، عصمت آدم جی اور تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور نے فرد جرم عائد کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں الگ، الگ درخواستیں دائر کی تھیں۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے

ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل کورٹ کے 14 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

20 اکتوبر کو ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سےخبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے مالک کی ظاہر جعفر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی درخواست ضمانت منظور

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

18 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ نے ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں