کابل پاکستانی ہار کے لیے بیتاب

شائع August 19, 2013

 

لاہور: پاکستان فٹبال ٹیم کے کھلاڑی پریکٹس سیشن کے دوران۔— اے ایف پی
لاہور: پاکستان فٹبال ٹیم کے کھلاڑی پریکٹس سیشن کے دوران۔— اے ایف پی

کابل: افغان پرستا ر دس سال بعد اپنے ملک میں کھیلے جانے والے پہلے عالمی فٹبال میچ کو لے کر بہت پرجوش ہیں۔

طویل عرصے تک عالمی فٹبال میچ کی میزبانی سے محروم رہنے کے بعد پاکستان کی میزبانی نے ایک دہائی سے جنگ زدہ ملک میں ماحول کو گرما دیا ہے۔

مقامی شائقین کو امید ہے کہ کابل میں افغانستان فٹبال فیڈریشن اسٹیڈیم کی مصنوعی گھاس پر منگل کی دوپہر افغان ٹیم مہمانوں پر حاوی رہے گی۔

عالمی درجہ بندی پر 139 درجے پر فائز افغانستان نے آخری مرتبہ 2003 میں ترکمانستان کی میزبانی کی تھی اور 1977 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہو گا جب پاکستان اور افغانستان کی فٹبال ٹیمیں مد مقابل ہوں گی۔

کابل میں میچ کی ٹکٹیں خریدنے کے بعد اے ایف پی سے گفتگو میں سولہ سالہ طالب علم غلام عباس کوہی نے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان میچ پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔

'مجھے اپنی زندگی میں اس جیسا کوئی دوسرا میچ یاد نہیں۔مجھے یقین ہے کہ افغانستان اس مقابلے میں ایک درجن گول سکور کر کے فتح حاصل کرے گا'۔

عباس کہتے ہیں: ہماری ٹیم بہت مضبوط ہے، میں نے اس میچ کے دس ٹکٹ خریدے ہیں، میرے پاس افغان پرچم بھی ہیں اور میں بہت پُرجوش ہوں۔   اس میچ کے لیے ٹکٹ کی قیمتیں ایک سو سے تین سو افغانی ہیں۔

فیفا کی جانب سے منعقدہ یہ میچ دوستانہ نوعیت کا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کافی عرصے سے جاری سرحدی تناؤ کے باعث دونوں جانب سے محب الوطنی پر مبنی جذبات دیکھنے کو ملیں گے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں اور تشدد پھیلانے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔ 

افغانستان میں بہت سوں کا ماننا ہے کہ پاکستان آج بھی بارہ سال سے جاری طالبان کی مذاحمتی تحریک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

پاکستان کا شمار ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جنھوں نے  2001 - 1996کے درمیان طالبان دور حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

بیس سالہ محمد علی نے پانچ پانچ ڈالرز کے دو ٹکٹیں خریدنے کے بعد اے ایف پی سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا: مجھے یقین ہے کہ افغانستان یہ میچ جیت جائے گا اور امید ہے کہ جیت پاکستان کی افغان امور میں مداخلت کا ایک مناسب جواب ہو گا۔

'میں اپنی ٹیم کی حمایت کے لیے تمام دوستوں کے ساتھ یہ میچ دیکھنے آؤں گا، ہمیں یہ میچ ہر صورت جیتنا ہو گا'۔

لیکن دوسری جانب، افغان فٹبال کے سابق کھلاڑی اور ہیرو صابر روح پرور کہتے ہیں کہ اس میچ کے ذریعے مشکلات کے شکار دونوں ملکوں کے درمیان اظہار یک جہتی ہونا چاہیے۔

اس میچ کو دیکھنے کے لیے حال ہی میں جرمنی سے وطن واپس لوٹنے والے قومی ٹیم کے سابق کپتان نے امید ظاہر کی یہ میچ دونوں ملکوں کی عوام کے لیے خوشی اور تفریح کا سبب ہو گا۔

'میں سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتا، مجھے لگتا ہے کہ سیاست دان دونوں قوموں کو نذدیک لانے اور باہمی تعلقات پر گہرے سیاہ بادلوں کا سبب بننے والے مسائل کے حل میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس میچ کے ذریعے اعتماد سازی اور باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔

روح پرور نے بتایا کہ ان کے وطن واپس لوٹنے کا مقصد قومی ٹیم کی اخلاقی حمایت اور اسے تحریک بخشنا ہے۔

'میں پہلے بھی انہیں کھیلتا دیکھ چکا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ وہ مضبوط، پرجوش اور پروفیشنل ہیں'۔

عالمی رینکنگ میں 167 نمبر پر موجود پاکستان فٹبال کے عہدے دار کہتے ہیں کہ چھتیس سالوں بعد کابل میں کھیلا جانے والا یہ میچ ایک تاریخ رقم کرے گا۔

پاکستان فٹبال فیڈریشن کے سیکریٹری احمد یار خان لودھی نے اے ایف پی کو بتایا کہ سرحد پار ٹیم بھیجنا بہت دلچسپ اقدام ہے۔

خیال رہے کہ ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان وقتاً فوقتاً کھیلوں کے مقابلے ہوتے رہتے تھے لیکن 1979 میں افغانستان پر سویت یونین کے حملے اور بعد میں دہائیوں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی اور طالبان دور حکومت میں کھیلوں کی سطح پر تعلقات ختم ہو گئے۔

سن 2009، لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان آج تک عالمی سطح کا کوئی مقابلہ منعقد کرانے میں ناکام رہا ہے۔

گزشتہ دنوں اے ایف ایف کے سیکریٹری جنرل سید آغا زادہ نے فیفا ۔ ڈام سے گفتگو میں بتایا : 1977 کے بعد پہلی مرتبہ کابل میں عالمی فٹبال میچ کی میزبانی کرنا اور وہ بھی پاکستان کے خلاف، ہمارے ملک میں فٹبال کے لیے بہت بڑی بات ہے۔

‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک انتہائی تکلیف دہ وقت دیکھنے کے بعد ہم معمول کی جانب لوٹ رہے ہیں’۔ طالبان دور حکومت میں فٹبال کھیلنے پر پابندی تو نہیں تھی لیکن کابل کا پرانا غازی سٹیڈیم سزائے موت دیے جانے کے حوالے سے بدنام تھا۔

منگل کو کابل میں کھلیے جانے والے اس میچ کے بعد جمعرات کو افغان پریمئیر لیگ کے دوسرے سیزن کا آغاز ہو گا، جس میں ملک بھر سے آٹھ منتخب ٹیمیں ٹکرائیں گی۔

طالبان دور کے خاتمے کے بعد سے کابل میں کرکٹ اور فٹبال بہت مقبول ہوئے ہیں۔

کرکٹ میں نو وارد افغانستان آٹھ دسمبر کو متحدہ عرب امارات میں پاکستان جیسی مضبوط ٹیم سے ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے جا رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 3 جولائی 2025
کارٹون : 2 جولائی 2025