ویکسینیشن کرانے والی ماؤں کے دودھ میں کووڈ اینٹی باڈیز کے شواہد دریافت

11 نومبر 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کووڈ 19 کا شکار ہونے والی خواتین اپنے دودھ کے ذریعے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بچوں تک منتقل کرتی ہیں۔

مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے متاثر ہونے والی مائیں اور ویکسینیشن کرانے والی خواتین کے دودھ سے بچوں میں منتقل ہونے والی اینٹی باڈیز یکساں ہوتی ہیں یا مختلف ہوتی ہیں۔

اب امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں اس کا جواب سامنے آیا۔

یونیورسٹی آف روچسٹر میڈیکل سینٹر اور نیویارک یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد دریافت ہوئے جن کے مطابق مائیں 2 قسم کے مدافعتی اینٹی باڈیز دودھ کے دوران بچوں میں منتقل کرتی ہیں۔

نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز کے زیرتحت ہونے والی اس تحقیق میں 77 ماؤں کو شامل کیا گیا تھا۔

ان میں 47 خواتین کووڈ کو شکست دے چکی تھیں جبکہ 30 ایسی تھیں جن کی ایم آر این اے ویکسینز سے ویکسینیشن ہوچکی تھی۔

ان خواتین سے حاصل کیے گئے دودھ کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتل کی گئی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین نے کووڈ کو شکست دی تھی ان کے نمونوں میں امینو گلوبلن اے اینٹی باڈیز (آئی جی اے) کی سطح زیادہ تھی۔

اس کے مقابلے میں ویکسینیشن کرانے والی خواتین کے نمونوں میں امیونوگلوبلن جی (آئی جی جی) اینٹی باڈیز کی مقدار زیادہ تھی۔

یہ دونوں اینٹی باڈیز کورونا وائرس کو ناکارہ بناسکتی ہیں اور یہ پہلی بار ہے جب محققین نے دونوں اینٹی باڈیز کے بارے میں یہ دریافت کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اینٹی باڈیز کی مقدار کی جانچ پڑتال ایک چیز ہے مگر ان کے فعال ہونے اور وائرس ناکارہ بنانے کی صلاحیت دوسری چیز۔

ان کا کہنا تھ کہ تحقیق کے نتائج میں ہم نے دریافت کیا کہ دونوں گروپس میں موجود اینٹی باڈیز وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس سے قبل تحقیقی ٹیم کی سابقہ تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 سے متاثر ماؤں کے دودھ میں اینٹی باڈیز کے شواہد کو ثابت کیا گیا تھا۔

فالو اپ تحقیق میں بیماری کے کچھ عرصے بعد اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی اور نتائج سے معلوم ہوا کہ بیماری کے 3 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسینیشن کرانے والی ماؤں میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 3 ماہ بعد معمولی سے معتدل کمی آئی۔

محققین نے بتایا کہ دودھ میں موجود اینٹی باڈیز کا رجحان ویکسینیشن کرانے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح سے مطابقت رکھتا ہے، یعنی چند ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی آتی ہے مگر پھر بھی یہ سطح ویکسینیشن سے قبل کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔

اب محققین کی جانب سے دیگر سیزنل کورونا وائرسز سے بننے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما پیڈیا ٹرکس میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل نومبر 2021 کے آغاز میں اٹلی کے بامبینو گیسو چلڈرنز ہاسپٹل کی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے والی خواتین بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے بچوں میں زیادہ متحرک مدافعتی ردعمل متحرک کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 2 ماہ کی عمر میں ماں کا دودھ پینے والے شیر خوار بچوں کے لعاب دہن میں ایسی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلی بار ثابت کی ہے کہ ماں بھی اپنے نومولود بچوں کا مدافعتی نظام دودھ سے منتقل ہونے والی اینٹی باڈیز سے متحرک کرتی ہیں۔

مگر نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لعاب دہن میں موجود اینٹی باڈیز کورونا وائرس کا سامنا ہونے پر بیمار ہونے سے تحفظ ملتا ہے یا نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں