مظفر گڑھ: مبینہ زیادتی کی شکار خاتون سب انسپکٹر پر ریپ متاثرین کی ویڈیوز شیئر کرنے کا الزام

اپ ڈیٹ 21 نومبر 2021
خاتون نے ستمبر میں اپنے اغوا اور زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کروایا تھا—فائل/فوٹو: اے پی
خاتون نے ستمبر میں اپنے اغوا اور زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کروایا تھا—فائل/فوٹو: اے پی

پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں رواں برس ستمبر میں اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کرنے والی خاتون سب انسپکٹر کو پولیس نے ملزم کے ساتھ زیادتی کے شکار متاثرین کی ویڈیوز اور سرکاری دستاویزات فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے برطرف کردیا۔

مظفرگڑھ پولیس کی جانب سے جاری ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) محمد حسن اقبال کے 30 اکتوبر کو دستخط شدہ احکامات کے مطابق خاتون افسر کی شکایت پر ایک مقدمہ درج کیا گیا۔

مزید پڑھیں: مظفرگڑھ: خاتون پولیس افسر کا مبینہ اغوا، جنسی زیادتی کی کوشش

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد ملزم کو گرفتار کرکے ان کا موبائل قبضے میں لے لیا تو مزید انکشافات ہوئے۔

پولیس نے کہا کہ موبائل کے جائزے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ خاتون سب انسپکٹر کے ملزم کے ساتھ تعلقات قائم تھے۔

مظفرگڑھ پولیس نے کہا کہ خاتون سب انسپکٹر نے محکمانہ خفیہ ریکارڈ اور اور تصاویر بھی وٹس ایپ پر ملزم کو بھیجا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ خاتون افسر نے مختلف زیادتی کیسز کی ویڈیوز، سٹی پولیس اسٹیشن لیہ کی ایک خفیہ رپورٹ، سرکاری ویڈیوز اور ہائی کورٹ کی ایک ویڈیو بھی ملزم کے ساتھ شیئر کی تھی۔

رپورٹ کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ ‘ایک پولیس افسر کی حیثیت سے انہوں نے محکمہ پولیس کی خفیہ دستاویزات جاری کیں، جو ان کی جانب سے قواعد کی سنگین پامالی کا اظہار اور اعتبار کو ٹھیس پہنچانے کا مجرمانہ عمل ہے’۔

پولیس نے بتایا کہ ‘خاتون افسر کا یہ عمل قابل گرفت ہے اور نظم و ضبط کے خلاف ہے اور یہ عمل ان کے خلاف انضباطی کارروائی کا باعث ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: گینگ ریپ کا شکار ماں بیٹی نے ملزمان کو شناخت کر لیا

حکم نامے میں کہا گیا کہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور قانون کی مجرمانہ خلاف ورزی ثابت ہونے پر خاتون سب انسپکٹر کو پنجاب پولیس رولز 1975 کے تحت سروس سے برطرف کرکے بنیادی سزا دی گئی ہے۔

پولیس حکام نے متعلقہ عہدیداروں کو برطرف خاتون سب انسپکٹر سے تمام سرکاری مراعات فوری طور پر واپس لینے کی ہدایت کر دی۔

یاد رہے کہ مظفرگڑھ میں رواں برس ستمبر میں خاتون پولیس سب انسپکٹر نے انہیں رات کے اندھیرے میں اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا تھا ان کی نشان دہی پر ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس نے نامزد ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے خلاف ریپ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ تفتیش کے لیے پولیس اسٹیشن آنے والی پنجاب پولیس کی جینڈر کرائم افسر کو ہی مبینہ طور پر اسلحے کے زور پر اغوا کے بعد زیادتی کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیں: ٹک ٹاکر دست درازی کیس: زیر حراست 98 افراد کو رہا کرنے کا حکم

مقدمے میں بتایا گیا تھا کہ مظفرگڑھ کے تھانہ صدر میں جینڈر کرائمز کی تفتیش کے لیے خاتون سب انسپکٹر رکشے میں آرہی تھیں کہ تھانہ صدر اور ڈی پی او ہاؤس سے چند قدم کے فاصلے پر کار سوار ملزم کو دیکھا جو اس سے قبل انہیں موبائل کے ذریعے فون اور میسجز بھیجتا رہا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے خاتون افسر کو ان کی کار میں بیٹھنے پر مجبور کیا اور انہیں چمن بائی پاس کے قریب باغات میں لے گیا، جہاں سب انسپکٹر کو اسلحے اور چھری کے زور پر مبینہ طور پر زیادتی کی کوشش کی لیکن خاتون نے مزاحمت کی تو تشدد کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

پولیس نے بتایا تھا کہ ملزم شام کو 7 سے 8 بجے کے درمیان خاتون افسر کو علاقے میں چھوڑ کر فرار ہوگیا اور خاتون افسر کو ان کے والد اور رشتے دار نے وہاں سے اٹھایا۔

تبصرے (0) بند ہیں