وقت ہے عمل کا
موت کے بھیانک رقص نے مسلسل ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے- اس کے روکنے کی امید بہت کم ہے- یہ ہلاکتیں تو محض اعداد و شمار ہیں پر ان ہلاکتوں نے ملک کو ایک قتل گاہ بنا دیا ہے-
ایک جنازے کے دوران خودکش حملے میں کم ز کم 30 پولیس اہلکاروں کا قتل اور کراچی کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں دہشتگرد حملے میں 10 نوجوان لڑکوں کی ہلاکت شاید دو سب سے لرزہ خیز واقعات ہیں جو تشدد کی تازہ ترین خونی لہر کو اجاگر کرتے ہیں- کوئی بھی دن دہشتگرد حملوں کا سامنا کئے بغیر نہیں گزرتا-
ڈی آئی خان جیل سے لے کر دور افتادہ شمالی علاقہ جات میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کے بہیمانہ قتل تک کے یہ واقعات، عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوے حوصلوں اور ریاست کے ختم ہوتی اتھارٹی کی طرف اشارہ کرتے ہیں- حد یہ کہ ملک کا دارلحکومت تک بڑے دہشتگرد حملے کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر قلعہ بند ہو کر رہ گیا ہے- یہ شاید ملکی تاریخ کے خطرناک ترین وقتوں میں سے ایک ہے- ایک اندرونی تباہی ہونے والی ہے جو سالمیت کے لئے خطرہ ہے-
پھر بھی ایسے لگتا ہے سیاسی قیادت کو حالات سنگینی کا کوئی احساس نہیں ہے- مذمت صرف الفاظ کی حد تک ہے اور کارروائی کوئی نہیں- ملک جب خون میں نہا رہا تھا، ہمارے وزیر اعظم ایک ہفتے کے لئے سعودی عرب کے نجی دورے میں مصروف تھے- قومی سلامتی کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے کی کوئی فوری ضرورت نظر نہیں آتی-
الجھن اور گھبراہٹ نے اس ڈراؤنے چیلنج کے حوالے سے قوم کے ردعمل کو بری طرح متاثر کیا ہے- بہت سے ریاستی اداروں کی بدنظمی، تازہ ترین متشدد حملوں کی لہر کے ساتھ اور نمایاں ہو گئی ہے-
حکومت میں بڑھتے ہوۓ جمود اور مختلف صوبوں کی حکمران سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود وسیح اختلافات نے نے پالیسی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے، اس طرح دہشتگردوں کو کھل کر اپنی کارروائی کرنے کے لئے ماحول اور گنجائش مل گئی ہے-
ڈی آئی خان جیل پر سرکش حملہ، اور خیبر پختون خواہ میں بڑے پیمانے پر بڑھتی ہوئی پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ، نئی صوبائی حکومت کی عسکریت پسندوں سے نمٹنے میں تامل کا نتیجہ ہے- پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے نرم رویے کی وجہ سے وہاں کی سیکورٹی ایجنسیاں بھی غافل ہو گئیں چناچہ صوبے میں دہشتگردوں کو نئی تحریک مل گئی-
جیل پر ہونے والے حملے کی پیشگی انٹیلی جنس رپورٹ کے باوجود انتظامیہ اس حملے کو روکنے کے لئے مناسب احتیاطی تدابیر کرنے میں ناکام رہی- ایک بددل اور مناسب ساز و سامان سے عاری پولیس اور دیگر سول ایجنسیان بمشکل ہی مسلح اور اچھی طرح تربیت یافتہ حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں- تاہم، تکلیف دہ بات، دہشتگردی کے شکار افراد اور ان سیکورٹی اہلکاروں کی طرف ہماری سیاسی قیادت کا رویہ ہے جو دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ مارے گۓ-
کوئٹہ میں پچھلے دنوں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کا جنازہ جس میں بہت سے سینئر افسران تھے، کسی صوبائی یا مرکزی حکومت کے سینئر ممبر کی موجودگی کے بغیر عمل میں آیا-
شاید اس سے بھی برے حالات خیبر پختون خواہ کے ہیں جہاں پی ٹی آئی کی قیادت میں حکومت کی تشکیل کے بعد سے درجنوں پولیس اہلکار پچھلے دو ماہ میں دہشتگردوں کا نشانہ بنے ہیں-
ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے برعکس، ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے جنازے میں شرکت تو ایک طرف، کوئی وزیر دہشتگرد حملے کی جاۓوقوع تک کا دورہ نہیں کرتا-
جب سے صوبے میں دہشتگردی کے متشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا ہے، پولیس اپنے محدود وسائل اور انسداد دہشتگردی کی تربیت نہ ہونے کے باوجود بڑی بے جگری سے مقابلہ کرتی رہی ہے- وہ صوبے میں طالبان کے خلاف جنگ میں پہلی صف پر رہے ہیں- ان میں بہت سے اعلیٰ عہدے پر فائز پولیس افسران ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں-
لیکن خیبر پختون خواہ پولیس کا حوصلہ، پی ٹی آئی - جے آئی انتظامیہ کے تحت آ کر اور کم ہو گیا ہے- بجاۓ پولیس کی صلاحیت کو بڑھانے کے، ہر دہشتگرد حملے کے بعد وزراء 'طالبان سے امن مذاکرات' کی مالا جپتے نظر آتے ہیں- خیبر پختون خواہ کے چیف منسٹر پرویز خٹک کا طالبان کو دشمن کہنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے جبکہ انہوں نے خود بہت سے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے-
کوئی کیسے پولیس سے اپنے محاظ کے دفاع کی امید کر سکتا ہے جبکہ حکومت دہشتگردوں سے صلح کے لئے بے چین ہے؟
کیا کوئی جیل کے محافظوں اور پولیس اہلکاروں کو ڈی.آئی خان جیل کے حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت نہ کرنے اور وقوعہ سے فرار ہو جانے اور اپنا یونیفارم اتار دینے پر الزام ٹھہرا سکتا ہے؟ موجودہ پی ٹی آئی - جے آئی حکومت نے متحدہ مجلس عمل کی یاد تازہ کر دی ہے جس نے صوبے میں طالبان کو اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع دیا-
افسوسناک بات یہ ہے کہ ان افسران اور فوجیوں کی قربانیوں کو جو میدان جنگ یا دہشتگرد حملوں میں مارے جاتے ہیں ہم نا ہی مانتے ہیں اور نا ہی ان کا احترم کرتے ہیں- نو جنرل افسران سمیت اب تک 4000 سے زائد فوجی ان باغیوں سے جنگ میں مارے جا چکے ہیں- لیکن مشکل ہی سے ملک کے کسی بڑے سیاستدان نے مرنے والوں کے خاندانوں سے تعزیت کی زحمت کی ہوگی، میدان جنگ کے دورے کی تو بات ہی چھوڑیں-
یہ ملٹری کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اپنے شہیدوں کو عزت دیں- ملٹری میں منایا جانے والے سالانہ یوم شہدا میں کبھی بھی بڑے سیاسی رہنما شریک نہیں ہوۓ- تقریب میں مرنے والوں کے خاندانوں کی میز ہر سال لمبی ہو جاتی ہے- کچھ بڑے سیاسی لیڈروں کی یہ بک بک سن کر انہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا کہ 'یہ ہماری جنگ نہیں'؟ صاف ظاہر ہے، ایسی دروغ گوئی سے نا قابل اعتبار قبائلی علاقوں میں دشمن سے برسر پیکار جوان افسروں کا مورال ہرگز بلند نہیں ہو سکتا- جب یہ ہماری جنگ ہی نہیں ہے تو وہ کس لئے لڑ رہے ہیں؟
عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوۓ تشدد کے ساتھ، وہ آخری چیز جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا وہ "یہ کس کی جنگ ہے" جیسی احمقانہ بحث میں پڑے رہنا ہے- اور یہ پاکستان کی سالمیت اور اتحاد کو لاحق خطرے کی موجودگی میں اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بن گیا ہے- ملک میں پھیل جانے والی حالیہ دہشتگردی کی لہر سے اب ان سیاستدانوں کی آکھیں کھل جانی چاہییں جو اب تک اپنے دشمن کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں-
ہمارے پاس برباد کرنے کے لئے وقت نہیں ہے کیوں کے ملک آھستہ آھستہ افراتفری کی طرف پھسلتا جا رہا ہے-
حکومت کو فوراً اقدامات کرنے ہونگے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے-
ترجمہ: ناہید اسرار