کراچی: مبینہ پولیس مقابلے میں کالج طالبعلم کو قتل کرنے والا پولیس اہلکار گرفتار

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2021
ایس ایس پی غربی نے واقعے کو غلط فہمی کا شاخسانہ قرار دیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایس ایس پی غربی نے واقعے کو غلط فہمی کا شاخسانہ قرار دیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں کالج کے طالب علم کو قتل اور اس کے ساتھی کو زخمی کرنے والے پولیس اہلکار اور اس کے دوست کو گرفتارکرلیا گیا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے واقعے کو مقابلہ قرار دیا تھا۔

سوشل میڈیا صارفین نے واقعے پر شدید مذمت کا اظہار کیا ہے جبکہ عباسی شہید ہسپتال پر مقتول نوجوان کے رشتہ داروں اور اہل علاقہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا، بعدازاں ڈی آئی جی غربی ناصر آفتاب سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے عباسی شہید ہسپتال میں مظاہرین سے مذاکرات کیے اور لاش ورثا کے حوالے کی۔

بعدازاں اورنگی ٹاؤن تھانے میں پولیس اہلکار توحید اور اس کے دوست عمیر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا، مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ) ،109 (اکسانے کی سزا)، 302 (قتل) 324 (اقدام قتل)، 394 ( ڈکیتی کے ارتکاب میں قتل) اور (انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997) کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام کو حاصل ہونے والی ایف آئی آر کے متن کے مطابق شکایت کنندہ بادشاہ خان کا کہنا ہے کہ پیر کو رات 9 بج کر 15 منٹ پر ان کے رشتہ دار نے انہیں آگاہ کیا کہ ان کے بھتیجے ارسلان محسود اور اس کے دوست یاسر پر فائرنگ کی گئی ہے اور انہیں عباسی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ڈکیتی کے بعد فرار ہونے والا ملزم پولیس کی فائرنگ سے ہلاک

بادشاہ خان کا کہنا تھا کہ ارسلان اپنے دوست کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ٹیوشن گیا تھا، واپسی پر تقریباً رات 8 بج کر 30 منٹ پر اورنگی ٹاؤن تھانے کی حدود میں ان پر فائرنگ کی گئی، تاہم ابتدائی طور اہل خانہ سمجھے تھے کہ یہ ڈکیتی میں مزاحمت کا واقعہ ہے۔

تحقیقات کرنے پر پتا چلا کہ پولیس اہلکار توحید اور اس کے دوست عمیر نے انہیں ڈکیت سمجھ کر ان پر فائرنگ کی ،پولیس کانسٹیبل توحید علاقے میں انٹیلی جنس ڈیوٹی پر تعینات تھا۔

تحقیقات کے دوران گرفتار پولیس اہلکار نے بتایا کہ انہوں نے نوجوانوں کا پیچھا کیا اور انہیں لگا کہ مقتول نے ان پر فائرنگ کے لیے ’پستول نکالی‘ ہے، جس کے بعد پولیس کانسٹیبل نے ان پر فائرنگ کردی۔

مقتول کے دوست کاکہنا ہے کہ وہ سمجھے تھے کہ پولیس کانسٹیبل اور اس کا دوست ’ڈکیت‘ ہیں کیونکہ انہوں نے وردی کے بجائے سادہ لباس پہنا ہوا تھا۔

پولیس سرجن ڈاکٹر قرار حسین عباسی کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم سے ظاہر ہوا ہے کہ ارسلان کو کمر میں ایک گولی لگی جو سینے میں جاگھسی اور ممکنہ طور پر گولی لگنے کے بعد موٹر سائیکل سے گرنے پر اسے چوٹیں آئی ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: ڈکیتی کے شبہے میں شہری کے قتل میں ملوث 6 پولیس اہلکار گرفتار

ایس ایس غربی کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزمان کی مقتول سے کوئی دشمنی تھی نہ ان کے درمیان کوئی تلخ کلامی ہوئی تھی۔

ایس ایس پی غربی نے واقعے کو غلط فہمی اور بھول چوک قرار دیا۔

مقتول کے ورثا کا احتجاج

واقعے بعد مقتول کے والد کے ہمراہ سینکڑوں افراد عباسی شہید ہسپتال کے ایمرجنسی سینٹر میں جمع ہوئے اور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا ، مظاہرین نےواقعے کو ’ایک اور ماورائے عدالت قتل‘ قرار دیا ہے۔

احتجاج میں مقتول کے ورثا اور رشتہ داروں سمیت پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ و دیگر نے شرکت کی۔

اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ایک جوان لڑکے کو ’پولیس نے بے رحمی سے قتل کردیا‘، مقتول ہوپ کالج میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’حکام کہتے ہیں کہ کراچی میں امن ہوگیا ہے، کیا یہ امن ہے‘؟

شیر آفریدی نے میڈیا کے کردار کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’کچھ میڈیا چینلز نے جعلی مقابلے کے بعد نوجوان ارسلان محسود کو ڈکیت قرار دیا تھا‘۔

واقعے کے بعد کراچی پولیس میڈیا سیل نے ایک پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے میں ’نامعلوم ملزم‘ ہلاک ہوگیا جبکہ اس کا دوست جائے وقوع سے فرار ہوگیا۔

واٹس ایپ کے ذریعے پھیلنے والے پیغام میں کہا گیا کہ ’ملزمان سے 5 راؤنڈ سمیت ایک پستول‘ برآمد ہوئی ہے جبکہ ملزمان کے خلاف مزید تحقیقات جاری ہیں۔

پی ٹی ایم کے صوبائی کو آرڈینیٹر نور اللہ ترین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’اگر سوشل میڈیا پر شور نہ ہوتا اور ہم یہاں اکٹھے نہ ہوتے تو یہ واقعہ بھی بہت سے دوسرے ماورائے عدالت قتل کی طرح قالین کے نیچے دھکیل دیا جاتا‘۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری ہے اگر یہ اس ہی طرح ناکام رہے تو انتشار پھیل جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں