ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث نہیں تو پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی، اسلام آباد ہائی کورٹ

18 جنوری 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت سے جبری گمشدگیوں پر برہمی کا اظہار کیا— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت سے جبری گمشدگیوں پر برہمی کا اظہار کیا— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر مؤثر اقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، معاملے پر وفاقی حکومت نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کے گمشدگی کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: مطیع اللہ جان کا اغوا، مبینہ جبری گمشدگی کا مقدمہ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان دوران سماعت عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، مدثر نارو کے اہلخانہ کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے جو جبری گمشدگی میں نہیں آتے، اکثر لوگوں نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک کو چھوڑا، پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا اور کچھ لوگ خیبر پختونخوا کے حراستی مراکز میں ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسا بھی ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سر چوراہوں پر لٹکائے جاتے تھے، کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ پھر بھی لوگ حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حراستی مراکز سے متعلق ایک قانون بنا تھا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ:حکومت کو گمشدہ انجینئر کے اہل خانہ کے اخراجات ادا کرنے کا حکم

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسن کے والد نے کہا کہ میرے دونوں بیٹے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے جنہیں 2016 میں اٹھایا گیا، ایک ایل ایل بی اور دوسرا ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں پڑھ رہا تھا، واقعہ کی ایف آئی آر جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایات پر درج ہوئی، جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے، میں نے ایک درخواست دی کہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ یہ کس کا کام ہے؟۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے، دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟ سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں، ایس ای سی پی کے ملازم کو بھی اٹھایا گیا تھا، ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟ ایک بیچارے نے کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بہتر بتا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے پر کام جاری ہے، وفاقی وزیر

اس موقع پر کرنل انعام رحیم ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے مسنگ پرسن کیس میں ملوث ایک انٹیلی جنس افسر کی تصویر دکھائی تو لاپتہ شہری واپس آ گیا، شہری نے واپس آ کر بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ افغانستان چلا گیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھر رہی ہیں، یہ کون کر رہا ہے؟ حکومت اور وفاقی کابینہ جوابدہ ہے اس پر کرنل انعام رحیم نے مؤقف اپنایا کہ لاپتہ افراد کے 8ہزار 279 کیسز ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آئی جی اسلام آباد سے اس سے متعلق رپورٹ منگوا لیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق آرمڈ فورسز بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں، کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں، آپ اس عدالت کو حل بتائیں، اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکریٹریٹ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں، یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا، یہ ایسی بات ہے کہ ریاست کو ہل جانا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے غیرریاستی عناصر کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی متحرک ہو جاتے ہیں، عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے، یہ عدالت کسی کو سمن کر کے کیا کہے گی؟ وہ کہے گا مجھے نہیں پتہ؟ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لوگ جینوئن بھی غائب ہو سکتے ہیں، ایسے واقعات کی وجہ سے لوگ ریاست پر شک کرتے ہیں، پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کمیشن نے جے آئی ٹی بنائی اور رپورٹ دے کر کہا کہ ان کی جان تو چھوٹ گئی، وہ بچہ یقیناً شمالی علاقہ جات تو نہیں گیا تھا، کم از کم معاملے کی تفتیش ہو جاتی تو لوگوں کو اعتماد ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے، اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہو جائے تو اس سے اچھا پیغام جائے گا، جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر کسی کو نشاندہی ہو جائے اور چیف ایگزیکٹو ایکشن نہ لیں تو وہ جوابدہ ہیں۔

مزید پڑھیں: لاپتا فرد کیس: ’عدالتوں سمیت سب جوابدہ ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ غاصب تھے، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے، وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے اور اب مفرور ہیں، میرے لیے کہنا آسان ہے کہ جس دور میں گمشدگیاں ہوئیں، اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں، تاہم میں ایسا نہیں کہوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے ان تینوں کیسز کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے گا۔

دوران سماعت مسنگ پرسنز کے والد نے مؤقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن کی وڈیو موجود ہے اس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے، جبری گمشدگیوں کے ہر کیس میں شہری کو اٹھانے کی فوٹیج نہیں ہوتی، میرے بیٹوں کے کیس میں وڈیو نہیں، عینی شاہدین موجود ہیں جنہوں نے بیانات ریکارڈ کرائے، کیا کوئی ایس ایچ او اپنے آئی جی کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے؟ آخر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟۔

مسنگ پرسنز کے وکیل نے کہا کہ کہ حراستی مرکز کا دورہ کرایا جائے تو کافی لاپتہ شہری بازیاب ہو سکتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی بات نہیں، حراستی مرکز میں موجود تمام افراد کی شناخت اور لسٹ موجود ہے، حراستی مرکز میں موجود لوگوں کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات بھی کرائی جاتی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا شہری کیس میں سرکاری حکام پر ایک کروڑ روپے جرمانہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟، یہ عدالت، وکیل، صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کر سکتا۔

عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی لسٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر مؤثر اقدامات کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل تین ہفتوں میں مطمئن کریں کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے اور جبری گمشدگیوں کے کیس میں 14 فروری کو حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں