شہباز شریف کو 10دن میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2022
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حلف نامے کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حلف نامے کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کو خط لکھ کر ان کے بھائی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس 10دن میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دفتر سے شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آپ نے ہائی کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ رجسٹرار ہائی کورٹ کو نواز شریف کی صحت کی جانچ کے حوالے سے رپورٹس وقتاً فوقتاً جمع کراتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کُل 8 رپورٹس رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس جمع کرائی گئیں اور اور اس سلسلے میں آخری رپورٹ 8 جولائی 2021 کو جمع کرائی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل نے لکھا کہ میڈیا میں دستیاب نواز شریف کی موجودہ جسمانی حالت اور ملک سے روانگی کے وقت انتہائی سنگین حالت کے باوجود انہیں بیرون ملک ہسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا اور ان کی سیاسی اور تفریحی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے یہ عندیا ملتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کے تحت وہ وطن واپسی کے لیے مکمل فٹ ہیں جبکہ حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں اور ان کے قریبی اہل خانہ کے بیانات سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 11 جنوری 2022 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کی خلاف ورزی پر کارروائی شروع کروں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھائی کی واپسی کا جعلی حلف نامہ دینے پر لاہور ہائیکورٹ شہباز شریف کےخلاف کارروائی کرے‘

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 16 نومبر 2019 کے احکامات کی روشنی میں حکومت پنجاب کو درخواست کی گئی ہے کہ میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کی جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کیا جائے تاکہ ماہرین ان کی صحت اور وطن واپسی کے حوالے سے ماہرانہ رائے دے سکیں۔

خالد خان نے خط میں مؤقف اپنایا کہ 14جنوری 2022 کو پنجاب حکومت نے خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس کا 17 جنوری کو اجلاس ہوا، جس میں ماہر امراض قلب ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس نے طبی دستاویزات کا جائزہ لیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نے 29 صفحات میں نواز شریف کی طبی صورتحال، خون کے نمونے اور دیگر چیزوں کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں دیں لہٰذا میڈیکل بورڈ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اس پر کوئی ماہرانہ رائے دے سکے۔

انہوں نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی میڈیکل بورڈ کے جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے وقتاً فوقتاً طبی رپورٹس جمع کرانے کے حلف نامے پر عمل نہیں کیا لہٰذا آپ نے ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کی خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو علاج کیلئے بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ وزیراعظم کا تھا، اسد عمر

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں حلف نامے کی خلاف ورزی کی مناسب کارروائی شروع کرنے سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو باور کرایا جائے کہ میڈیکل بورڈ کی تجاویز کی روشنی میں اس خط کے موصول ہونے کے 10دن کے اندر میڈیکل رپورٹس جمع کرائیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ 10 دن میں رپورٹس جمع نہ کرانے کی صورت میں حلف نامے کی خلاف ورزی پر آپ کے خلاف توہین عدالت اور آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آف شور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کی پنجاب سے نواز شریف کی رپورٹس کے جائزے کیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا، بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی، جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں