’قیام پاکستان سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا‘

26 جنوری 2022
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ آزادی سے اب تک توہین مذہب کے ایک ہزار 415 الزامات اور مقدمات میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 1947سے2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔

محقیقین کا ماننا ہے کہ ’حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔

مزید پڑھیں: لاہور: توہین مذہب کا ملزم 10 سال بعد بری

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ 55 کیسز دارالحکومت اسلام آباد میں دائر کیے گئے، جو خیبر پختونخوا اور کشمیر میں رپورٹ ہونے والے مجموعی کیسز سے زیادہ ہیں۔

علاوہ ازیں پنجاب میں سب سے زیادہ ایک ہزار 98 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں توہین مذہب کے 177 کیسز رپورٹ ہوچکے ہی، اس زمرے میں خیبر پختونخوا میں 33، بلوچستان میں 12 جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں 11 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال عدالت نے غیر قانونی قرار دیا ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔

پاکستان کے توہین مذہب کے قانون اور اس کی سماجی و سیاسی اثرات پر بحث کی دلیل ’وہ افراد جو اسلام کا احترام نہیں کرتے انہیں سزا دی جائے‘ سے ’ وہ افراد جو ذاتی مفاد کے لیےتوہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں‘ تک ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل

معاشرے کا ایک طبقہ مطالبہ کرتا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس سے بدسلوکی سے بچا جاسکتا ہے۔

تقریباً تمام قاتل دلیل دیتے ہیں کہ مقتول نے مذہب کے خلاف ناقابل معافی جرم کیا ہے اور وہ ’واجب القتل‘ تھا، یہ شدید متنازع جملہ ہے جیسے غلط ترجمہ کرتے ہوئے اس کے معنی ’قتل کردینے کے قابل‘ کردیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں اخباروں میں شائع ہونے والے توہینِ مذہب سے متعلق تشدد واقعات، متاثرین، مجرموں، قانون نافذ کرنے والوں کے کردار اور الزامات کی تعداد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ریاست دلیل دیتی ہے کہ وہ افراد جو توہین مذہب کے نام پر قتل کرتے ہیں انہیں گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کے مشتبہ قاتل کا مقدمہ جووینائل قانون کے تحت چلانے کا حکم

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔

ابتدائی طور پر 1927میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد شق 295 میں ایک اور شق ضمنی شک 295 اے شامل کی گئی۔

علم الدین نے توہین مذہب سے متعلق کتاب شائع کرنے پر مہاشے راجپال کو قتل کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں