اسلامی نظریاتی کونسل کا نور مقدم کیس کے فیصلے کا خیر مقدم

اپ ڈیٹ 26 فروری 2022
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ نور مقدم کے قتل کیس میں عدالت کا فیصلہ کونسل کی متعدد سفارشات کی عکاسی کرتا ہے — فائل فوٹو: اے پی پی
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ نور مقدم کے قتل کیس میں عدالت کا فیصلہ کونسل کی متعدد سفارشات کی عکاسی کرتا ہے — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے نور مقدم کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے بیان میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ نور مقدم کے قتل کیس میں عدالت کا فیصلہ کونسل کی متعدد سفارشات کی عکاسی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کونسل کی سفارشات میں مقدمات کی مسلسل سماعت کے ذریعے انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'توہین مذہب' کے الزام پر تشدد کرنا شریعت کے خلاف ہے، اسلامی نظریاتی کونسل

انہوں نے کہا کہ تسلسل کے ساتھ سماعتوں کے بعد صرف چار مہینوں کے دوران نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ کیا گیا جو کہ ہماری عدالتی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، اس لیے معاشرے کے تمام طبقات نے فیصلے کو سراہا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی عدالت کے اس فیصلے کو تعریف کی نظر سے دیکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کونسل کئی مواقع پر ان سفارشات اور نقطہ نظر کا اظہار کر چکی ہے کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن ہمیں قانون اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں سزاؤں پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیس میں ہر قسم کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے تفتیشی عمل کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس کا کردار حوصلہ افزا اور قابل تعریف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامی نظریاتی کونسل کی مندر پر حملے کی مذمت

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ عدالتیں تمام مقدمات بالخصوص قتل اور جنسی زیادتی کے مقدمات میں فوری انصاف فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی خیر مقدم کیا اور کہا کہ امید ہے کہ یہ عمل انصاف کی جلد فراہمی کی راہ ہموار کرے گا۔

واضح رہے کہ 24 فروری کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی۔

عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے 4 ماہ کے ٹرائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو دو روز قبل سنایا گیا تھا۔

فیصلہ سنائے جانے کے وقت کمرہ عدالت میں وکلا، تھراپی ورکس کے ملازمین، مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم، والد ذاکر جعفر کے علاوہ مدعی مقدمہ شوکت مقدم موجود تھے۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں ظاہر جعفر کو قتل عمد کے سلسلے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور نور مقدم کے ورثا کو 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:اسلامی نظریاتی کونسل کی ڈی این اے سے متعلق فیصلے پر نظرثانی

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزم کی سزائے موت کی توثیق اسلام آباد ہائی کورٹ کرے گی۔

اس کے علاوہ دفعہ 364 (قتل کی غرض سے اغوا) کے تحت ملزم کو 10 برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے، دفعہ 342 (حبسِ بیجا) کے تحت ایک سال قید، دفعہ 376 (زنا بالجبر) کے تحت 25 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

مزید برآں قتل اور دیگر جرائم میں اعانت پر فیصلے میں شریک ملزمان جان محمد (باغبان) اور افتخار (چوکیدار) کو 10، 10 سال قید کی اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

البتہ عدالت نے تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور سمیت تمام ملازمین، مرکزی ملزم کے والدین عصمت آدم اور ذاکر جعفر کو بری کردیا تھا۔

نور مقدم قتل کیس

واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب آرڈیننس کی بعض دفعات غیر اسلامی قرار

واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل تھے۔

قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور ٹرائل 4 ماہ 8 روز جاری رہا جس کے دوران 19 ملزمان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

اس دوران ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی بیمار بھی ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم میڈیکل ٹیسٹ میں اسے مکمل فٹ قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں