یوکرین کی جارحیت کے خلاف مزاحمت، روس کی سیاسی و معاشی تنہائی میں اضافہ

اپ ڈیٹ 28 فروری 2022
ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ  یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ٹیلی فون پر بتایا کہ آئندہ 24 گھنٹے یوکرین کے لیے اہم ہیں—ٹوئٹر
ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ٹیلی فون پر بتایا کہ آئندہ 24 گھنٹے یوکرین کے لیے اہم ہیں—ٹوئٹر

روسی افواج کو یوکرین کے دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سخت مزاحمت کا سامنا ہے جبکہ عالمی سطح پر اس کی سیاسی اور اقتصادی تنہائی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز ' کے مطابق صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ کے لیے مغربی قیادت کی جوابی کارروائیوں کی روک تھام کے پیش نظر گزشتہ روز روس کے جوہری ہتھیاروں کو ہائی الرٹ پر رکھ دیا ہے جس نے شہری مراکز پر قبضہ کرنے کی روسی زمینی افواج کی کوششوں کو پسپا کر دیا۔

یوکرین کے حکام کا کہنا تھا کہ کہ پیر کی صبح سے پہلے دارالحکومت کیف اور خارکیف کے بڑے شہر میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جب کہ سفارتی تدبیریں بھی جاری رہیں۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین پر حملہ کرنے پر روسی مندوب کی 'معذرت'

یوکرین کا کہنا تھا کہ ماسکو کے ساتھ بغیر کسی پیشگی شرائط کے مذاکرات بیلاروس اور یوکرین کی سرحد پر ہوں گے، روسی خبر رساں ایجنسی تاس نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ مذاکرات پیر کی صبح شروع ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن پیر کو اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ایک مشترکہ ردعمل کے لیے بات کریں گے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن روس کی جوہری پوزیشن کے بارے میں خطرناک بیان بازی کے ساتھ جنگ کو بڑھا رہے ہیں جبکہ روسی افواج تقریباً 4 کروڑ 40 لاکھ آبادی والے جمہوری ملک کے بڑے شہروں کا محاصرہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ کے ایک امدادی ادارے نے بتایا ہے کہ میزائلوں کی بارش کے ساتھ ہی، تقریباً 4 لاکھ شہری، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، پڑوسی ممالک میں چلے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ کی روس سے فوجیں واپس بلانے کی اپیل، نتائج تباہ کن ہونے کا انتباہ

علاوہ ازیں ایک سینئر امریکی دفاعی اہلکار کا کہنا تھا کہ روس اب تک یوکرین پر 350 سے زیادہ میزائل داغ چکا ہے، جن میں سے کچھ میزائلوں نے شہر کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اہلکار کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ محاصرے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں، جو فوجی حکمت عملی اور جنگی تدبیروں کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ جب آپ محاصرے کی حکمت عملی اپناتے ہیں، تو اس سے شہری نقصان کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

ادھر ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ٹیلی فون پر بتایا کہ آئندہ 24 گھنٹے یوکرین کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ روسی جارحیت میں اب تک کسی بڑی فتوحات کا دعویٰ نہیں کیا گیا، روس نے یوکرائن کے کسی شہر پر قبضہ نہیں کیا، یوکرین کی فضائی حدود کو کنٹرول نہیں کیا گیا، اور اس کے فوجی دوسرے دن تک کیف شہر کے مرکز سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر رہے۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین کے معاملے پر مغرب اور روس میں بڑے تصادم کا اشارہ

روس یوکرین میں اپنی کارروائیوں کو ایک خصوصی آپریشن قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ آپریشن علاقے پر قبضے کے لیے نہیں بلکہ اپنے جنوبی پڑوسی ملک کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنے اور اسے خطرناک قوم پرستوں کو پکڑنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

غیر معمولی پابندیاں

مغربی ممالک کی جانب سے سیاسی، اسٹریٹیجک، اقتصادی اور کارپوریٹ پابندیاں اپنی حد اور مربوط ہونے کے لحاظ سے غیر معمولی ہیں جبکہ روس کے مقابلے میں یوکرین کی نہتی مسلح افواج کے لیے مزید فوجی حمایت کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ہے۔

مغربی ممالک کی جانب سے کچھ روسی بینکوں کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے نظام (ایس ڈبلیو آئی ایف ٹی) سے بلاک کرنے سمیت سخت پابندیوں کے نفاذ کے بعد روسی کرنسی روبل کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد گر کر اب تک کی کم ترین سطح پر آ گئی۔

جاپان اور جنوبی کوریا کا بھی کہنا ہے کہ وہ ایس ڈبلیو آئی ایف ٹی سے کچھ بینکوں کو بلاک کرنے کی کارروائی میں شامل ہوں گے، جنوبی کوریا جو کہ سیمی کنڈکٹرز کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے، روس کو اسٹریٹجک اشیا کی برآمد پر بھی پابندی لگائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

اسٹریٹس ٹائمز اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی اور جہاز رانی کے مرکز سنگاپور کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد روس پر پابندیاں اور سختیاں عائد کرنا ہے۔

ادھر جاپان نے کہا ہے کہ وہ بیلاروس میں کچھ افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر بھی غور کر رہا ہے جو کہ روسی حملے کا ایک اہم مقام ہے۔   بیلاروس میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں ملک کی غیر جوہری حیثیت ختم کرنے والے نئے آئین کی منظوری دی گئی ہے۔

روس کے مرکزی بینک نے پابندیوں کے بڑھتے ہوئے نتائج کو سنبھالنے کے لیے کہا ہے کہ وہ مقامی مارکیٹ میں سونے کی بغیر کسی حد کے خریداری دوبارہ شروع کرے گا، بینک سونے کی دوبارہ خریداری کی نیلامی شروع کرے گا اور بینکوں کے لیے اوپن غیر ملکی کرنسی کی پوزیشنوں پر عائد پابندیوں میں نرمی کرے گا۔

علاوہ ازیں برطانوی تیل کی بڑی کمپنی برٹش پیٹرولیم، جو روس میں سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کار کمپنی ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ سرکاری تیل کمپنی روزنیفٹ میں 2 کروڑ 5 لاکھ ڈالر تک مالیت کی اپنی سرمایہ کاری چھوڑ دے گی، یورپی یونین (ای یو ) نے تاریخ میں پہلی بار کسی جنگ زدہ ملک کو ہتھیار فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں جنگی طیاروں سمیت دیگر ہتھیار یوکرین کو دینے کا وعدہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین کے معاملے پر امریکا، اتحادیوں کی روس پر پابندیاں

ادھر جرمنی، جس نے پہلے ہی روس سے ایک منصوبہ بند زیر سمندر گیس پائپ لائن منجمد کر دی تھی، اس کا کہنا ہے کہ وہ دفاعی اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرے گا اور کئی دہائیوں بعد اپنی اقتصادی طاقت کے ساتھ فوجی طاقت کو بڑھانے میں اپنی ہچکچاہٹ کو دور کرے گا۔

یورپی یونین کی چیف ایگزیکٹو ارسولا وان ڈیر لیین نے یورو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یوکرین کی رکنیت کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرینی ہم میں سے ہیں۔

یورپی یونین ( ای یو ) نے تمام روسی طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے باہر کردیا ہے اور ایسا ہی اقدام کینیڈا نے بھی کیا ہے، جس کے بعد روسی ایئر لائن ایروفلوٹ آئندہ نوٹس تک یورپی مقامات کے لیے تمام پروازیں منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئی۔

مزید برآں امریکا اور فرانس نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر روس چھوڑنے پر غور کریں۔

صورتحال پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، یا اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کا ایک غیر معمولی ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین کے معاملے پر مغرب اور روس میں بڑے تصادم کا اشارہ

او وی ڈی انفو پروٹیسٹ مانیٹر نے کہا ہے کہ حملے کے خلاف روس سمیت پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں، روس میں جنگ مخالف مظاہروں میں تقریباً 6 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ادھر روسی جارحیت کے خلاف یورپ بھر میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا، جن میں صرف برلن میں ہونے والے مظاہرے میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ شامل تھے۔

میٹا پلیٹ فارمز نے کہا ہے کہ اس نے فیس بک اور انسٹاگرام پر تقریباً 40 جعلی اکاؤنٹس، گروپس اور پیجز کے نیٹ ورک کو ہٹا دیا گیا ہے، ہٹائے گئے اکاؤنٹس روس اور یوکرین سے کام کرتے تھے اور یوکرین میں عوامی شخصیات کو نشانہ بناتے تھے ان کو طے شدہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔

علاوہ ازیں ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ اس نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے استعمال کے قوانین کی خلاف ورزی پر ایک درجن سے زائد اکاؤنٹس کو معطل کردیا ہے جبکہ کئی لنکس کو شیئر کے لیے بلاک کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں