یوکرین پر روسی حملے کی نسل پرستانہ کوریج، مغربی میڈیا کو سخت تنقید کا سامنا

28 فروری 2022
سی بی ایس کی نمائندہ چارلی ڈی اگاٹا  نے "مہذب" یوکرین کی صورت حال کا موازنہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی صورتحال سے کیا اور انہیں "غیر مہذب" ممالک قرار دیا—فوٹو:ٹوئٹر
سی بی ایس کی نمائندہ چارلی ڈی اگاٹا نے "مہذب" یوکرین کی صورت حال کا موازنہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی صورتحال سے کیا اور انہیں "غیر مہذب" ممالک قرار دیا—فوٹو:ٹوئٹر

روسی حملے کے بعد دنیا کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے، پوری دنیا کے لوگ اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر چپکے ہوئے ہیں یا تازہ ترین خبریں جاننے کے لیے موبائل فونز کو بے چینی سے دیکھ رہے ہیں۔

تنازع کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کے درمیان، کچھ لوگوں نے یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کی میڈیا رپورٹنگ کے دوران نسل پرستانہ رویوں کی نشاندہی کی ہے۔

نسل پرستانہ رپورٹنگ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب سی بی ایس کے نمائندہ چارلی ڈی اگاٹا نے "مہذب" یوکرین کی صورت حال کا موازنہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی صورتحال سے کیا اور انہیں "غیر مہذب" ممالک قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین کی جارحیت کے خلاف مزاحمت، روس کی سیاسی و معاشی تنہائی میں اضافہ

اپنی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرین وہ جگہ نہیں ہے جیسے عراق یا افغانستان ہے جہاں کئی دہائیوں سے تنازعات موجود ہیں، یہ نسبتاً مہذب، نسبتاً یورپی ملک ہے جہاں آپ اس کی توقع نہیں کریں گے یا امید نہیں کریں گے کہ جنگ ہونے والی ہے۔

چارلی ڈی اگاتا کے ریمارکس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غم و غصے کے اظہار کے بعد ایلن میکلوڈ نامی ایک ٹویٹر صارف نے اس طرح کے مزید واقعات کی ایک فہرست مرتب کی جس میں صحافی یوکرین کے شہریوں کی حالت زار پر رپورٹنگ کرتے ہوئے نسل پرستی کا شکار ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین پر حملہ کرنے پر روسی مندوب کی 'معذرت'

اسی طرح کے ایک اور واقع میں الجزیرہ کے اینکر پیٹر ڈوبی نے کہا تھا کہ جنگ کے باعث فرار ہونے والے یوکرین کے لوگ اپنے رہن سہن کے انداز سے خوشحال متوسط طبقے کے لوگ ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقوں سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین سے مختلف ہیں۔

ملٹی میڈیا صحافی احمر خان نے دی ٹیلی گراف میں شائع ایک مضمون کا اسکرین شاٹ شیئر کیا جس میں مصنف ڈینیئل ہنان نے لکھا تھا کہ وہ ہمارے جیسے لگتے ہیں۔ یہی چیز ہے جو بہت چونکا دینے والی ہے۔"

دریں اثنا، بی ایف ایم ٹی وی کے فلپ کوربی نے یوکرین کی صورت حال کو اس طرح بیان کیا، "ہم یہاں پیوٹن کی حمایت یافتہ شامی حکومت کی بمباری سے بھاگنے والے شامیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے، ہم ان یورپیوں کی بات کر رہے ہیں جو اپنی جان بچانے کے لیے ہمارے جیسی دکھائی دینے والی کاروں میں سوار ہو کر نکل رہے ہیں۔

کیف انڈیپنڈنٹ کے لیے کام کرنے والی انیسٹیشیا لاپاٹینا کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے پناہ گزینوں کو "غیر مہذب" قرار دینے والے نامہ نگاروں پر "حیرت زدہ" ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ کی روس سے فوجیں واپس بلانے کی اپیل، نتائج تباہ کن ہونے کا انتباہ

انہوں نے ٹوئٹر پر اپنی ٹویٹس کی ایک سیریز میں کہا کہ جو کوئی بھی اس طرح کے بیانات کی حمایت کرتا ہے وہ نسل پرست متعصب ہے اور وہ بہت زیادہ شرم کا مستحق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کے ریمارکس سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے تو اس طرح کی باتیں کرنے والوں کی جانب سے میں بہت معذرت خواہ ہوں، جنگ کے باعث اپنے گھروں سے فرار ہونے والے افراد اپنی نسل، رنگ ، مذہبی وابستگی، یا کسی اور چیز سے قطع نظر عزت اور حمایت کے مستحق ہیں۔

این وائی ٹی میگزین کے رپورٹر اڈا بی ویلز نے صحافیوں کو اپنے اندر جھانکے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹرز کو اپنے تعصبات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے خلاف رپورٹ کر سکیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ڈائریکٹر برائے پاکستان اور افغانستان کیتھی گینن نے سی بی ایس کے نمائندے کے تبصروں کا براہ راست جواب دیتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ عراق در حقیقت انسانی تہذیب کا گہوارہ ہے اور افغانستان پر پہلے سوویت یونین نے حملہ کیا اور بعد میں امریکی اتحاد افواج نے حملہ کیا تھا۔

عرب اور مشرق وسطیٰ کے صحافیوں کی ایسوسی ایشن نے ایسے واقعات کی ایک فہرست بھی شیئر کی جس میں صحافیوں نے نسل پرستانہ تبصرے کیے اور میڈیا تنظیموں سے کہا کہ وہ ان تبصروں کے پوشیدہ اور واضح تعصبات کو ذہن میں رکھیں۔

مزید پڑھیں:یوکرین کے معاملے پر مغرب اور روس میں بڑے تصادم کا اشارہ

صحافیوں کی ایسوسی ایشن کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ "اس قسم کے بیانات مغربی صحافت میں دنیا کے کچھ حصوں جیسے مشرق وسطیٰ، افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکا میں المیے کو معمولی سمجھنے کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

یہ سوچ اور رویہ جنگ کے ساتھ ان کے تجربے کو کسی نہ کسی طرح معمول کی کارروائی اور توقع کے مطابق ایک عمل کے طور پر پیش کرتی ہے جو بہت غیر انسانی ہے۔

کالم نگار مشرف زیدی نے بھی سی بی ایس کے نمائندے کی وڈیو شیئر کرتے ہوئے ویڈیو کے کییشن میں لکھا کہ "آپ کے خیال میں نسل پرستی اور تعصب صرف فاکس نیوز اور ڈونلڈ ٹرمپ کے تک ہی محدود ہے؟

لکھاری اور کالم نگار رافعہ زکریا کا معاملے پر تبصرہ کرتے کہنا تھا کہ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ٹیلی ویژن پر سفید فام لوگ کھلم کھلا طور پر کہہ رہے ہیں کہ غیر مہذب عراقیوں اور افغانوں کو مارنا بالکل ٹھیک ہے کیونکہ وہ مہذب نہیں ہیں۔

معذرت

سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے غم و غصے کے اظہار کے بعد سی بی ایس کے رپورٹر چارلی ڈی اگاتا نے معافی مانگی، سی بی ایس نیوز کی جانب سے ٹویٹر پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں رپورٹر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

میں نے جس انداز سے بات کی مجھے اس پر افسوس ہے اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں، میں جس چیز کو بتانے کی امید کی وہ یہ ہے کہ یوکرین میں جاری لڑائی اس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ اس ملک میں حالیہ برسوں میں اتنے بڑے پیمارے پر جنگ نہیں دیکھی گئی، ان ممالک کے بر عکس جنہوں نے کئی برس اس طرح کی لڑائی کو المناک طور پر سہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کو کبھی بھی تنازعات کا موازنہ نہیں کرنا چاہئے، میں نے الفاظ کا غیرانتخاب کیا اور میں معذرت خواہ ہوں۔

الجزیرہ نے یہ کہتے ہوئے معاملے پر معافی مانگی کہ اس کے نمائندے نے "غیر مناسب موازنہ" کیا، ان کے تبصرے کو غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ" قرار دیتے ہوئے ادارے نے اپنے سامعین سے معذرت کی اور یقین دلایا کہ پیشہ ورانہ اخلاقیات کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں