مسلم لیگ (ق) مفت میں ووٹ نہیں دے گی، بڑی آفر کرنا پڑے گی، بلاول بھٹو

03 مارچ 2022
بلاول بھٹو نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا حکومت پر ’جمہوری حملہ‘ کرنے پر متفق ہونا خوش آئند ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا حکومت پر ’جمہوری حملہ‘ کرنے پر متفق ہونا خوش آئند ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے (ق) لیگ مفت میں ووٹ نہیں دے گی، حکومت نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنایا ہوا ہے، ہمیں انہیں بہتر آفر کرنی ہوگی۔

نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے مارننگ شو میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور اس کے جیالوں کے لیے یہ کڑوی گولی جیسا ہے کہ ہم وزیراعظم کے امیدوار کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دیں، لیکن ملک کے مفاد کے لیے ہم یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، امید ہے دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی اور ذاتی فوائد کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، اس کا مقصد ملک بھر میں اس آگہی کے لیے مہم چلانا ہے کہ عوام کا حکومت سے اعتماد اٹھنے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمان کا بھی حکومت سے اعتماد اٹھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: نمبرز پورے ہیں، 24 سے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لائیں گے، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی ہمارے نمبرز پورے ہوتے ہیں تو جس طرح یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ کی سیٹ کے الیکشن میں حکومت کو پارلیمان میں شکست دی تھی اسی طرح قومی اسمبلی میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے شکست دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے عدم اعتماد کے لیے 48 گھنٹوں کے ٹائم فریم سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت آصف زرداری دیگر اپوزیشن رہنماؤں سے رابطے کررہے ہیں اور میں لانگ مارچ میں مصروف ہوں، مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کون کون ہم سے رابطہ کر رہا ہے وقت آنے پر سب کارڈ سامنے لائیں گے لیکن ابھی کچھ نہیں بتا سکتا۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد، درکار اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے اپوزیشن بھرپور سرگرم

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے ابھی سے نہیں کافی عرصے سے کام کررہے ہیں، پیپلزپارٹی کا مؤقف ہے کہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کا جمہوری طریقہ عدم اعتماد ہے، پیپلز پارٹی استعفوں یا کوئی اور غیر جمہوری راستے کی حمایت نہیں کر سکتی، تمام سیاسی جماعتوں کا عدم اعتماد کے ذریعے حکومت پر ’جمہوری حملہ‘ کرنے پر متفق ہونا خوش آئند ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے خان صاحب کے پاس 2 آپشن ہیں، ایک یہ کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں اور گھر بیٹھیں اور دوسرا اگر وہ مقابکے کے لیے تیار ہیں تو اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں ورنہ جب ہم اسلام آباد پہنچیں گے تو ہم خود بندوبست کرلیں گے اور تحریک عدم اعتماد لائیں گے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہوجائے، آنے والا سیٹ اپ مختصر مدت کا ہوگا، نئے آنے والے سیٹ اپ کا واحد مینڈیٹ شفاف انتخابات ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دباؤ کے سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ہمارے لوگوں کو کوئی کالز نہیں آئیں، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کیا رول رہا ہے، اب اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو یہ خوش آئند بات ہے، اور اگر نیوٹرل نہیں ہے تو مجھے جو بھی اطلاع ملے گی وہ پوری قوم کے سامنے رکھوں گا، لیکن فی الحال پیپلز پارٹی کے کسی کارکن پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔

نواز شریف کی واپسی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا وطن واپس آنا یہ نہ آنا ان کا اپنا اور ان کی پارٹی کا فیصلہ ہے، پیپلزپارٹی کا یہ طریقہ کار نہیں ہے لیکن بہرحال میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں