ملک میں لاپتا ساڑھے 8ہزار افراد میں سے صرف ایک تہائی کی واپسی کا انکشاف

12 مارچ 2022
کمیشن آف انکوائری آن فورسڈ ڈسپیئرنس کے رجسٹرار نے لاپتا افراد کے ورثا کی جانب سے دائر کیس میں جمع کرائی— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
کمیشن آف انکوائری آن فورسڈ ڈسپیئرنس کے رجسٹرار نے لاپتا افراد کے ورثا کی جانب سے دائر کیس میں جمع کرائی— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

اسلام آباد: کمیشن آف انکوائری آن فورسڈ ڈسپیئرنس کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مارچ 2011 سے لاپتا 8ہزار 463 شہریوں میں سے صرف 3ہزار 284 ہی گھر واپس آئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رپورٹ کمیشن کے رجسٹرار نے لاپتا افراد کے ورثا کی جانب سے دائر کیس میں جمع کرائی۔

مزید پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

لاپتا افراد کا سراغ لگانے اور ذمہ دار افراد یا تنظیموں کی ذمہ داری کے تعین کے لیے 2011 میں قائم کمیشن نے انکشاف کیا کہ متعلقہ اداروں نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیے جانے کے باوجود 550 کیسز میں زیر حراست افراد کو پیش نہیں کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مارچ 2011 سے 28 فروری 2022 تک تقریباً 11سالوں کے دوران کمیشن کو جبری گمشدگیوں کی 8ہزار 463 شکایات موصول ہوئیں، ان میں سے 6ہزار 214 کیسز کو نمٹا دیا گیا ہے جبکہ 2ہزار 249 کیسز ابھی زیر تفتیش ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 3ہزار 284 لاپتا افراد کا سراغ لگایا جا چکا ہے اور وہ گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ 228 لوگوں کے انکاؤنٹر وغیرہ میں ہلاک ہونے کی اطلاع ہے اور متعلقہ پولیس نے ریاست کی جانب سے ایف آئی آر درج کی اور قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'لاپتہ افراد کمیشن، گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام'

اس کے علاوہ 946 لوگوں کو قانون کے تحت حراستی مراکز میں قید رکھا گیا ہے، متعلقہ حلقوں کی طرف سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی متواتر ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ دہشت گردی اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے 584 لوگوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مکمل تفتیش کے بعد 1ہزار 178 کیسز جبری گمشدگیوں کے نہیں پائے گئے کیونکہ ان کیسز میں یہ افراد خود کہیں چلے گئے یا یہ کیسز اغوا برائے تاوان یا ذاتی دشمنی سے متعلق ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2007 اور 2009 کے درمیان لاپتا افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف فوجی آپریشن، خیبرپختونخوا میں پے درپے ڈرون حملے اور کچھ لوگوں کی جانب سے افغان سرحد کی غیر قانونی کراسنگ تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا ہے کیونکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ محض پوسٹ آفس کا کردار ادا کر رہا ہے۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کمیشن کا مقصد جبری گمشدگیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو مشورہ دینا تھا تاہم کمیشن نے 2011 میں اپنے قیام کے بعد سے کوئی تجویز پیش نہیں کی۔

مزید پڑھیں: ‘جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے مسودہ تیار’

، جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کو سماجی اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

ایڈووکیٹ راجا مشتاق نے عدالت کو اپنے دو بیٹوں کے بارے میں بتایا جو 2016 میں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے باہر سے لاپتا ہو گئے تھے، کمیشن نے ان کے بیٹوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کے چیئرمین کو ہائی کورٹ کے جج کے مساوی اختیار حاصل ہے لیکن انہوں نے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد کے لیے بھی یہ اختیار استعمال نہیں کیا۔

عدالت نے کیس میں سینئر وکیل فیصل صادق کو عدالت کا دوست مقرر کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

جسٹس من اللہ نے کمیشن کو ہدایت کی کہ لاپتا افراد سے متعلق ریٹائرڈ جسٹس کمال منصور عالم کی رپورٹ آئندہ سماعت تک پیش کی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں