روس سے متعلق بھارت کا ردعمل متزلزل ہے، جو بائیڈن

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2022
کواڈ گروپ کے رکن ممالک آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کے برعکس بھارت روسی تیل کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
کواڈ گروپ کے رکن ممالک آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کے برعکس بھارت روسی تیل کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے سے متعلق امریکا کے اتحادیوں میں سے صرف بھارت کا ردعمل متزلزل ہے۔

واشنگٹن میں امریکی کاروباری رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ تمام نیٹو ممالک اور بحرالکاہل میں (روس سے متعلق) ایک متحدہ محاذ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے کسی حد تک متزلزل ردعمل کے سوا آسٹریلیا اور جاپان سمیت کواڈ کا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے مضبوط مؤقف ہے۔

جو بائیڈن نے روسی ہم منصب کے خلاف متحدہ محاذ کے لیے نیٹو، یورپی یونین اور اہم ایشیائی شراکت داروں سمیت امریکا کی زیر قیادت اتحاد کی تعریف کی۔

یہ بھی پڑھیں: بائیڈن کے اصرار کے باوجود چین کا روس کی مذمت سے انکار

اس میں وہ پابندیاں بھی شامل ہیں جن کا مقصد روس کی کرنسی کو کمزور کرنا اور بین الاقوامی تجارت اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل اشیا تک رسائی کو محدود کرنا ہے۔

تاہم کواڈ گروپ کے رکن ممالک آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کے برعکس بھارت روسی تیل کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے اقوام متحدہ میں ماسکو کی مذمت کرنے کے لیے ووٹنگ میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، نیٹو کو تقسیم کرنے کی امید کر رہے تھے لیکن اس کے برعکس نیٹو اتحاد آج سے پہلے کبھی اتنا مضبوط اور متحد نہیں نظر آیا۔

مغربی ممالک اس وقت روس کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بھارتی آئل ریفائنریز نے مبینہ طور پر رعایتی روسی تیل کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: روسی صدر کو اندازہ نہیں آگے کیا ہونے والا ہے، جو بائیڈن

بھارتی حکومت کے ایک عہدیدار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بھارت دنیا میں خام تیل کے تیسرے سب سے بڑے صارف کے طور پر اپنی ضروریات کا تقریباً 85 فیصد درآمد کرتا ہے، روس اس میں سے ایک فیصد سے بھی کم معمولی مقدار فراہم کرتا ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا تھا کہ لیکن اب یوکرین کے تنازع کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ہمارے چیلنجز میں اضافہ کر دیا ہے، بھارت کو توانائی کے مسابقتی ذرائع پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔

’پیوٹن، بائیولوجیکل اور کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کا ارادہ رکھتے ہیں‘

اجلاس سے خطاب میں جو بائیڈن نے مزید کہا کہ روس کی جانب سے یوکرین کے پاس بائیولوجیکل اور کیمیکل ہتھیار ہونے کے جھوٹے الزام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن خود ان ہتھیاروں کے استعمال کا ارداہ رکھتے ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا کہ ولادیمیر پیوٹن تنہا ہوچکے ہیں اور اب وہ نئے جھوٹے الزامات کا استعمال کر رہے ہیں جس میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ امریکا میں ہمارے پاس بائیولوجیکل ہتھیار ہیں جبکہ یورپ میں کیمیکل ہتھیار موجود ہیں، یہ بالکل درست نہیں، میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: نیٹو اور روس کے درمیان براہ راست جھڑپ تیسری عالمی جنگ ہوگی، جو بائیڈن

انہوں نے کہا کہ ولادیمیر پیوٹن یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یوکرین کے پاس بھی بائیولوجیکل اور کیمیکل ہتھیار موجود ہیں، یہ ایک واضح علامت ہے کہ وہ خود ان دونوں کو استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں، وہ ماضی میں بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کر چکے ہیں اور ہمیں اس سے محتاط رہنا چاہیے کہ کیا ہونے والا ہے۔

انہوں نے ردعمل کی تفصیلات بتائے بغیر متنبہ کیا کہ متحدہ نیٹو محاذ کی موجودگی میں پیوٹن اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایسے کسی اقدام کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

جو بائیڈن نے امریکی کاروباری برادری کو انٹیلی جنس کی تنبیہ سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے روس کے بڑھتے ہوئے سائبر خطرے کی جانب اشارہ کیا، انہوں نے کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر دفاع کی تیاری کریں کیونکہ پابندیوں کے ردعمل میں یہ روس کی جوابی کارروائی کا حصہ ہوسکتا ہے۔

یوکرینی صدر کا دوبارہ مذاکرات کا مطالبہ

یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے دوبارہ مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے بغیر یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ وہ کس قیمت پر جنگ کے خاتمے کے لیے راضی ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک روس کے الٹی میٹم کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا اور براہ راست روسی حملے کی زد میں آنے والے شہروں بشمول کیف، ماریوپول اور خارکیف پر روسی قبضے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین جنگ: چین نے روس کی مدد کی تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، امریکا

دریں اثنا یوکرین کی فوج نے دعویٰ کیا کہ روسی افواج کے پاس موجود گولہ بارود اور خوراک کا ذخیرہ 3 دن سے زیادہ نہیں چلے گا اور ان کو دستیاب ایندھن کی بھی یہی صورتحال ہے۔

حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تقریباً 300 روسی فوجیوں نے سومی علاقے کے ضلع اوختیرکا میں احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔

تاہم ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں