ڈالر کی اُونچی اڑان جاری، انٹربینک میں 196 روپے کی سطح عبور کرگیا

اپ ڈیٹ 17 مئ 2022
پورے مالی سال 2022 میں پاکستانی روپے نے ڈالر کو مضبوطی سے پکڑے رکھا لیکن گزشتہ دو مہینے بدترین ثابت ہوئے۔ — فائل فوٹو: رائٹرز
پورے مالی سال 2022 میں پاکستانی روپے نے ڈالر کو مضبوطی سے پکڑے رکھا لیکن گزشتہ دو مہینے بدترین ثابت ہوئے۔ — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں مسلسل چھ دن سے اونچی اڑان جاری ہے، جو منگل کوانٹربینک میں تاریخی بلند سطح 196 روپے کی سطح بھی عبور کرگیا، جس کی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بلند درآمدات ہیں۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق ڈالر گزشتہ روز 194 روپے60 پیسے پر بند ہوا تھا، اس کی قدر میں 11 بجکر 20 منٹ کے قریب ایک روپے 50 پیسے کا اضافہ ہوا جس کے بعد ڈالر 196 روپے 10 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا۔

غیر ملکی کرنسی کی قدر میں اضافہ منگل سے شروع ہوا, جب ڈالر کی قدر انٹربینک مارکیٹ میں 188 روپے 66 پیسے کی ہونے کے بعد بدھ کو بڑھ کر190 روپے 90 پیسے کی ہو گئی، جمعرات کو ڈالر کی قدر 192 روپے، جمعہ کو 193 روپے 10 پیسے جب کہ گزشتہ روز (پیر) کو ڈالر کی قدر بڑھ کر 194 روپے ہو گئی۔

ایف اے پی کے مطابق گزشتہ روز (پیر) انٹر بینک میں بین الاقوامی کرنسی 194 روپے 60 پیسے پر بند ہوئی۔ تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق ڈالر کی قدر زیادہ ہونے کے بعد 194 روپے 18 پیسے پر بند ہوئی۔

ڈان رپورٹ میں بتایا گیا کہ پورے مالی سال 2022 میں پاکستانی روپے نے ڈالر کو مضبوطی سے جکڑ رکھا لیکن گزشتہ دو مہینے بدترین ثابت ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی، ڈالر 194 روپے کی سطح عبور کرگیا

واضح رہے کہ ڈان رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جب گزشتہ ماہ11 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا تو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 182.3 روپے تھی، تب سے پیر تک روپیہ 11 روپے 40 پیسے یا 6.2 فیصد قدر کھوچکا تھا۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق ڈالر کی طلب میں کبھی کمی نہیں ہوتی، جو مقامی کرنسی کو کسی ایک قدر پر مستحکم نہیں ہونے دیتی۔

کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب کرنسی مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ ہے، دوسری جانب حکومت کی جانب سے ایندھن اور توانائی میں سبسڈی کی فراہمی اور آئی ایم ایف کے قرض پروگرام میں تاخیر بھی روپے کی قدر میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی درآمدی بلوں میں بے قابو اضافہ اور برآمدات میں کم رفتار سے اضافے کے ساتھ منسلک ہے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے نے تیل کے درآمدی بل کو دو گنا کر دیا ہے، جبکہ مجموعی درآمدات بھی بلند ترین سطح پر ہیں، اپریل میں درآمدات میں 72 فیصد اضافے کے بعد حکومت کے لیے بیرونی توازن کو بہتر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: روپے کی بے قدری جاری، ڈالر 193 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

دوسری طرف، مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بھی جون 2020 کے بعد کم ترین سطح 10ارب 30 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق غیرمعمولی بُلند درآمدی بل کے کم غیر ملکی سرمایہ کاری کے باعث شرح تبادلہ کو سپورٹ نہیں مل رہی۔ جبکہ جاری کھاتے میں 13 ارب ڈالر سے زیادہ کا خسارہ حکومت کے لیے چلینج ہے۔

انٹربینک مارکیٹ میں ڈیلرز نے پیر کو بتایا کہ شرح تبادلہ میں بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اُس وقت تک اضافہ ہوتا رہے گا جب تک حکومت روپے کی تیزرفتار بے قدری کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔

روپے کی بے قدری روکنے کیلئے جامع حکمت عملی بنانے کی ہدایت

زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور روپے کی شدید بے قدری پر وزیراعظم شہباز شریف نے منصوبہ سازوں کو کہا ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع حکمت عملی تشکیل دیں، تاکہ روپے کی تیزی سے گرتی قدر کو روکا اور زرمبادلہ ذخائر کو بہتر کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان (ای سی اے پی ) کے چیئرمین ملک بوستان کے ساتھ زوم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے موجودہ صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اشیائے خورونوش، توانائی کا درآمدی بل 24 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ای سی اے پی کی ٹیم سے گزشتہ ہفتے کو شرح تبادلہ کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔

ملک بوستان نے بتایا کہ روپے اور امریکی ڈالر کے مابین پریشان کن تعلق کے حوالے سے تبادلہ خیال کے لیے، وزیراعظم اور گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ منگل کو زوم پر ایک اور اجلاس منعقد ہوگا۔

گزشتہ 4 دن میں ہونے والے تین اجلاس اسلام آباد کی طاقتور راہداریوں میں بڑھتی ہوئی پریشانی کو ظاہر کررہے ہیں۔

کرنسی ماہرین نے بتایا کہ اس صورتحال پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں، جبکہ ڈالر زرمبادلہ کو سپورٹ کرنے کے لیے ڈالر کی آمد میں توقع سے زیادہ وقت لگ رہا ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضہ ملنے،چائنا کی جانب سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر کے 'رول اوور' اور سعودی عرب سے مدد کی توقع کر رہا ہے۔

عالمی مارکیٹ سے سکوک بانڈز کے اجرا سے ڈالر کے حصول کی امید کو ملک کے کمزور بیرونی کھاتے کے باعث سپورٹ نہیں مل رہی۔

مزید پڑھیں: رواں مالی سال کے 10 ماہ میں 39 ارب 26 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ

پچھلی حکومت کے دوران، مرکزی بینک نے 'فری فلوٹنگ' شرح تبادلہ کی حکومت کی، جس نے ابتدائی طور پر اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اس کے بعد روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوئی۔

مالی سال 2022 بدترین سال ثابت ہوا، ایس بی پی کے ذخائر میں دگنا کمی اور روپے کی قدر میں بھی 20 فیصد تنزلی ہوئی۔

ملک بوستان نے وزیراعظم کو بتایا کہ اوپن مارکیٹ یا ایکسچینج کمنپیز ڈالر کی قدر میں اضافہ کرتی ہیں، درحقیقت، کمرشل بینکس ڈالر کی قیمت میں اضافہ کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ درآمدکنندگان شرح تبادلہ کی غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں زیادہ 'ایل سی' کھول رہے ہیں، جبکہ برآمدکنندگان کم برآمدی رقم دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کی قلت کا سامنا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز نے مشیرخزانہ کے ساتھ پچھلے اجلاس میں اشیائے ضروریہ کے علاوہ تمام درآمدات پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

ای سی اے پی کی جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ زیادہ درآمدی مصنوعات کی ضرورت ہے تو انہیں خود ہی ڈالرز کا بندوبست کرنا چاہیے۔

اجلاس کو یہ تجویز بھی دی گئی کہ ملک بھر میں تمام مارکیٹوں کو سورج غروب ہونے سے پہلے بند کرنا چاہیے، جس سے توانائی کی خاطر خواہ بچت ہوگی جس سے تیل کے درآمدی بل میں کمی ہوگی اور عام عوام کو توانائی کی سپلائی بحال ہوسکے گی۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ سابقہ میکنزم کے ذریعے ڈالر کی قیمت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملکی معیشت پر نقصانات ہوں گے۔

تحقیقی سربراہ نے بتایا کہ شرح تبادلہ کا تعین مارکیٹ کی قوتوں کے ذریعے ہونا چاہیے، حکومت کو مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر کو بڑھانے سے لازمی اجتناب کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں