بھارت: توہین آمیز بیان پر مظاہرہ کرنے والوں کےخلاف کریک ڈاؤن، مغربی بنگال میں ایمرجنسی نافذ

اپ ڈیٹ 13 جون 2022
بی جے پی کے رہنماؤں نے سینئر اراکین کو ہدایت جاری کی ہیں کہ عوامی جلسوں کے دوران مذہبی معاملات پر بات کرتے ہوئے انتہائی محتاط رہیں — فوٹو: اے ایف پی
بی جے پی کے رہنماؤں نے سینئر اراکین کو ہدایت جاری کی ہیں کہ عوامی جلسوں کے دوران مذہبی معاملات پر بات کرتے ہوئے انتہائی محتاط رہیں — فوٹو: اے ایف پی

بھارتی پولیس نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز کلمات پر ملک بھر میں جاری مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے جبکہ مغربی بنگال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو اراکین کی جانب سے کیے گئے اسلام مخالف تبصروں کے خلاف مسلمان سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں بی جے پی نے اپنی ترجمان نوپور شرما کو معطل کردیا تھا اور ایک اور رہنما نوین کمار جندال کو نبی کریم ﷺ کے بارے میں متنازع تبصروں پر پارٹی سے نکال دیا تھا۔

ان گستاخانہ تبصروں نے کئی مسلم ممالک کو بھی ناراض کیا، جس سے نریندر مودی کی حکومت کو ایک بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: گستاخانہ بیان کے خلاف بھارت میں پرتشدد مظاہرے، 2 افراد جاں بحق

بی جے پی کے دو سابق عہدیداروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

قطر، سعودی عرب، یو اے ای، عمان، اور ایران جسے بھارتی تجارتی شراکت داروں کی جانب سے سفارتی چینل کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا تھا، جبکہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ روز بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تبصرے اور ٹوئٹس حکومت کے نظریات کی عکاسی نہیں کرتے۔

دوسری جانب رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے تبصروں پر ملک بھر میں احتجاج پھوٹ پڑے ہیں، اقلیتی مسلمان برادری کے کچھ لوگ بی جے پی کے دور حکومت کو تذلیل اور دباؤ کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کی تازہ ترین مثالوں میں عبادت کی آزادی سے لے کر خواتین کے سر پر حجاب پہننے تک درپیش مسائل شامل ہیں۔

گزشتہ روز مشرقی شہر رانچی میں احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ کے 2 نوجوان جاں بحق ہوگئے تھے، ادھر شمالی اتر پردیش ریاست میں ہنگامہ آرائی کے دوران 300 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

دریں اثنا بھارت میں گستاخانہ بیانات کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھر مسمار کیے جانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے مسمار کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب بنگال کی مشرقی ریاست میں حکام نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ہاورا کے صنعتی ضلع میں 16 جون تک عوامی جلسوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

مزید پڑھیں: گستاخانہ بیان پر انڈونیشیا، ملائیشیا کا بھارت سے احتجاج

پرتشدد واقعات کے بعد تقریباً 70 افراد کو فساد پھیلانے اور امن و امان کی صورتحال میں خرابی پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے بھارت میں برسرِ اقتدار جماعت کی سابقہ ترجمان نوپور شرما کے خلاف ویڈیو جاری کرنے پر ایک شہری کو گرفتار کرلیا۔

خیال رہے کہ نوپور شرما نے نبی ﷺ کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے تھے۔

یوٹیوب پر گردش کرنے والی اس ویڈیو کو حکام نے ملک بھر میں پھیلنے والی مذہبی بدامنی کو روکنے کی وسیع تر کوشش کے تحت اسے انٹرنیٹ سے خارج کردیا ہے۔

بی جے پی کے رہنماؤں نے سینیئر اراکین کو ہدایت جاری کی ہیں کہ عوامی جلسوں کے دوران مذہبی معاملات پر بات کرتے ہوئے ’انتہائی محتاط‘ رہیں جبکہ حکومت کی جانب سے سیکیورٹی بھی سخت کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: گستاخانہ بیان پر بھارتی ناظم الامور دفتر خارجہ طلب، مسلح افواج کا بھی اظہار مذمت

دریں اثنا قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق پریاگراج، سابقہ الہٰ آباد پولیس کے ظالمانہ رویے کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پولیس نے طلبہ رہنما آفرین فاطمہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے والد محمد جاوید، والدہ اور بہن کو گرفتار کرلیا۔

پولیس نے ذیابیطس کے مریض اور روزانہ کی بنیاد پر انسولین لینے والے آفرین فاطمہ کے والد کو احتجاج کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔

آفرین فاطمہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’پہلے پولیس اہلکار 8 بجکر 30 منٹ پر میرے والد کو لے گئے اور پھر دوبارہ رات 11 بجکر 30 منٹ پر آئے اور میری والدہ اور بہن کو گرفتار کیا، پھر رات ڈھائی بجے تیسری بار میرے گھر آئے اور مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مزاحمت کی جس کے بعد پولیس نے میرے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گھر میں اب صرف خواتین اور بجے موجود ہیں، ہم گھبرائے ہوئے ہیں اور صدمے میں مبتلا ہیں، پولیس نے ہمیں گھر چھوڑنے کے لیے کہا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ بیان: اراکین سینیٹ کا بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کا فیصلہ

آفرین نے مزید کہا کہ ’مجھے علم نہیں ہے کہ میرے والدین اور بہن کہاں ہیں، میں ان کی سلامتی کے حوالے سے پریشان ہوں، میرے والد ذیابیطس کے مریض ہیں اور ان کے لیے ہر رات انسولین کا انجیکشن لگانا لازمی ہے‘۔

بھارت میں مسلمان مظاہرین کے ساتھ ’ظالمانہ رویے‘ پر پاکستان کی مذمت

پاکستان نے گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد پرامن احتجاج ریکارڈ کرانے والے مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکام کے ناروا سلوک کی شدید مذمت کی تھی۔

11 جون کو جاری کردہ ایک بیان میں وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں حکام کی جانب سے طاقت کے ’اندھا دھند اور وسیع پیمانے پر‘ استعمال کے نتیجے میں رانچی میں دو بے گناہ مسلمان مظاہرین جاں بحق ہوئے اور دیگر 13 شدید زخمی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’رانچی شہر میں نہتے مظاہرین پر بھارتی فورسز کی بے دریغ فائرنگ کی جس کی فوٹیج ناقابل یقین حد تک ہولناک ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھارتی حکومت کی جابرانہ 'ہندوتوا' سے متاثر اکثریتی پالیسی کی ایک نئی پستی ہے جس کا مقصد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان، بھارتی حکومت کی جانب سے بھارتی مسلمان شہریوں کے ساتھ اس شرمناک سلوک کی مذمت کرتا ہے اور اس آزمائش کی گھڑی میں بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: شوبز شخصیات کی بھارتی سیاستدانوں کے گستاخانہ ریمارکس کی مذمت

وزارت نے پڑوسی ملک کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی عہدیداروں کے توہین آمیز ریمارکس کی عالمی سطح پر مذمت کے باوجود بھارتی حکومت خاموش ہے جبکہ دوسری طرف بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت اپنی اسلاموفوبک کارروائیوں پر قائم ہے اور اس نے شرمناک طور پر طاقت کے وحشیانہ اور اندھا دھند استعمال کے ذریعے عوامی احتجاج کو سنبھالنے کا انتخاب کیا ہے۔

اس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت میں اسلاموفوبیا کی سنگین طور پر بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لے۔

وزارت نے مزید کہا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق سلب کرنے کے لیے بھارت کو جوابدہ ہونا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو ان کے عقیدے اور مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی وجہ سے نشانہ نہ بنایا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں