پاکستان میں افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری

اپ ڈیٹ 19 جون 2022
ترجمان یو این ایچ سی آر نے کہا کہ جنوری 2021 سے اب تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رخ کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
ترجمان یو این ایچ سی آر نے کہا کہ جنوری 2021 سے اب تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رخ کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے کہا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے پاکستان کو پڑوسی ملک افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد کے نئے سلسلے کا سامنا ہے۔

ہر سال 20 جون کو منائے جانے والے پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر ترک ایجنسی ’انادولو‘ سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) پاکستان کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ جنوری 2021 سے اب تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔

قیصر خان آفریدی نے کہا کہ یو این ایچ سی آر کو اس بات کا علم ہے کہ جنوری 2021 سے اب تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد کی اطلاع ہے، تاہم عالمی تحفظ کے ضرورت مند افغان شہریوں کی مجموعی تعداد اس سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل مکمل

انہوں نے کہا کہ ہم فی الحال حکومت پاکستان کے ساتھ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی رجسٹریشن اور دستاویزات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں، پناہ کے متلاشی افراد میں سے زیادہ تر افغانستان سے تعلق رکھنے والے شہری ہیں۔

گزشتہ سال اگست میں کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے لاکھوں افغان باشندے پاکستان اور ایران فرار ہو گئے تھے۔

گزشتہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے یا اس کے ساتھ وابستہ رہنے والے بہت سے لوگ کابل پر قبضے سے پہلے ہی سخت گیر گروپ کے ردعمل کے خوف سے ملک چھوڑ گئے، جن میں سے کچھ کو امریکا یا یورپ ہجرت کرنے کا موقع ملا۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اس ہفتے کے شروع میں رپورٹ کیا تھا کہ امریکی حمایت یافتہ سابقہ افغان حکومت کے کئی اعلیٰ عہدیداروں نے جنگ کے آخری سالوں میں امریکا اور دیگر ممالک میں مہنگی جائیدادیں خریدنا شروع کردی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے 14 لاکھ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن مکمل کرلی، اقوام متحدہ

امریکی حمایت یافتہ سابقہ افغان حکومت کا خاتمہ افغان نیشنل آرمی کے غیر متوقع طور پر ہتھیار ڈالنے پر ہوا تھا۔

گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت اسلام آباد، افغان پناہ گزینوں کو دیگر ممالک کے سفر کے لیے کاغذی کارروائی مکمل ہونے تک قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کے لیے ٹرانزٹ ویزے جاری کرے گا۔

’وطن واپسی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا‘

یو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ توقع کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد اپنے وطن واپس آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔

قیصر خان آفریدی نے کہا کہ کمیشن کے رضاکارانہ وطن واپسی کے پروگرام کے تحت 2022 کے آغاز سے اب تک صرف 850 مہاجرین پر مشتمل 185 خاندان جنگ زدہ ملک میں واپس آئے ہیں، تاہم یہ تعداد گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران وطن واپسی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وطن واپسی پر واپس بھیجے گئے خاندانوں کو ان کی مدد کے لیے ایک گرانٹ ملتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی اور برادریوں کی تعمیر نو کر سکیں، اس سلسلے میں یو این ایچ سی آر وطن واپس آنے والے ہر خاندان کو 250 ڈالر کی مالی مدد فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں افغان مہاجرین کو اسمارٹ کارڈز جاری کیے جائیں گے

پاکستان اس وقت 13 لاکھ باقاعدہ رجسٹرڈ افراد جبکہ تقریباً اتنے ہی غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، ان مہاجرین میں سے اکثر خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں جو افغانستان کے لیے گیٹ وے کا کام کرتا ہے جبکہ بلوچستان اور کراچی بھی بڑی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی کرتے ہیں۔

قیصر آفریدی نے کہا کہ یو این ایچ سی آر اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ مہاجرین کی واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیے اور پناہ گزینوں کی حفاظت، وقار اور سلامتی کے حالات میں ہونی چاہیے۔

اس سلسلے میں افغان مہاجرین کے چیف کمشنر سلیم خان نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی اور سیاسی پیش رفت کے علاوہ گزشتہ 2 سالوں میں کورونا وائرس سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے بھی وطن واپسی کا عمل سست روی کا شکار رہا۔

انہوں نے انادولو ایجنسی کو بتایا کہ اس عمل میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کچھ بحالی اور تیزی نظر آئی ہے لیکن اس وقت مستقبل کے رجحان کی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے، اس رجحان کا تعین کرنے میں مزید 2 ماہ لگیں گے۔

’وطن واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں‘

کراچی کے ایک مہاجر کیمپ میں کیفے کے باہر بیٹھے سبز چائے سے لطف اندوز ہوئے افغان نوجوانوں کے ایک گروپ کا وطن واپسی کا کوئی ارادہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رواں سال افغان مہاجرین کی واپسی میں نمایاں کمی

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی کے شمالی مضافات میں واقع صحت کی بنیادی سہولیات اور صفائی ستھرائی کے انتظامات سے محروم علاقہ تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار پناہ گزینوں کا گھر ہے جو افغانستان میں طویل عرصے سے جاری تنازع کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

کراچی 3 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کا گھر ہے جن میں سے زیادہ تر پشتون اکثریتی علاقوں میں مزدوری کرتے ہیں یا چھوٹی دکانوں کے مالک ہیں۔

1980 میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد پاکستان ہجرت کرکے کراچی کو اپنا نیا گھر بنانے والے مولانا رحیم اللہ کا کہنا تھا کہ جنگ سے متاثرہ ملک میں بہتر امن و امان کے باوجود سست رفتار وطن واپسی کے پیچھے معاشی حالات اور نوجوان پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں عدم دلچسپی بنیادی وجوہات ہیں۔

رحیم اللہ نے انادولو ایجنسی کو بتایا کہ اگرچہ ہمارے بڑے خدشات، جو امن و امان اور طالبان کے قبضے کے بعد ممکنہ خانہ جنگی کے بارے میں تھے وہ دور ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی پناہ گزینوں کی بڑی اکثریت کا مستقبل قریب میں افغانستان واپسی کا کوئی منصوبہ اور ارادہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے دستاویزات کیلئے اہم فیصلہ

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں پاکستان میں ہمیں روزی کمانے کے لیے کام ملتا ہے جبکہ افغانستان میں اب بھی ایسا نہیں ہے۔

6 بچوں کے باپ رحیم اللہ نے مزید کہا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی اور پرورش پانے والی نسل کو اپنے وطن واپس جانے میں کوئی دلچسپی نہیں، اگر میں واپس جانا بھی چاہوں تو میرے بچے مجھے جانے نہیں دیں گے، ان کے لیے پاکستان ہی ان کا ملک ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق 2002 سے اب تک 44 لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجا گیا ہے لیکن ان میں سے لاکھوں لوگ پرتشددکارروائیوں، بے روزگاری اور تعلیم اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے پاکستان واپس آگئے۔

تبصرے (0) بند ہیں