عدالت کی دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 25 جون 2022
جبران ناصر نے کہا ہم نے کل عمر کے تعین کے حوالے سے سیکریٹری صحت کو درخواست دی ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
جبران ناصر نے کہا ہم نے کل عمر کے تعین کے حوالے سے سیکریٹری صحت کو درخواست دی ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے دعا زہرہ کیس میں مزید تفتیش کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

رواں سال مارچ میں کراچی سے لاپتا ہونے والی دعا زہرہ کو پنجاب کے شہر بہاولنگر سے بازیاب کروایا گیا تھا۔

دعا زہرہ نے گزشتہ عدالتی سماعتوں میں کہا تھا کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کیے گئے میڈیکل ٹیسٹ میں پتا چلا تھا کہ وہ 17 سال کی ہیں، بعد میں سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ دعا جو دعویٰ کرتی ہیں کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی وہ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔

سٹی کورٹ میں دعا زہرہ کے اغوا سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، مدعی مقدمہ کے وکیل جبران ناصر اور کیس کے تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کے والد کی ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست خارج

جبران ناصر نے عدالت میں سپریم کورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ ہم نے کل عمر کے تعین کے حوالے سے سیکریٹری صحت کو درخواست دی ہے، سپریم کورٹ نے ہمیں کہہ دیا کہ عمر کے تعین سے متعلق ہائی کورٹ کی آبزرویشن روکاوٹ نہیں ہے، دعا زہرہ کی عمر 17 سال قرار دے کر مقدمہ سی کلاس کردیا ہے۔

کیس کے مدعی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیے بغیر کیس سی کلاس میں منظور کرلیا جاتا ہے تو سپریم کورٹ کے آرڈر کا کیا ہوگا ، ملزم ظہیر کا پولیس کو دیا گیا بیان پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں، ملزم ظہیر کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔

جبران ناصر نے کہا کہ ملزم ظہیر نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ میری 3 سال سے دعا زہرہ سے دوستی تھی، ملزم ظہیر نے کہا کہ 17 اپریل کو دعا زہرہ لاہور آئی ٹیکسی کا کرایہ 22 ہزار روپے ادا کیا، جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور نے فری ول سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا جس کے پاس دعا زہرہ کا بیان ریکارڈ کرایا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے دعا زہرہ کے بیان کو چیلنج کیوں نہیں کیا، جس پر مدعی مقدمہ کے وکیل نے جواب دیا کہ پولیس فائل ملنے کے بعد سپریم کورٹ میں دوسری درخواست دائر کی تھی جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور کے بارے میں لکھا تھا، دعا زہرہ کے دو بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’کراچی سے لاپتا دعا زہرہ کو اوکاڑہ سے تلاش کرلیا گیا‘

جبران ناصر نے مزید کہا کہ لاہور میں مجسٹریٹ کے پاس دعا زہرہ سے ایک جعلی درخواست والد اور کزن کے خلاف لگوائی گئی، درخواست میں کہا گیا کہ والد اور کزن نے مجھے اور میرے شوہر کو ڈرا دھمکایا ، دعا زہرہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے والد اور کزن کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا، ہائی کورٹ میں بھی والد اور کزن سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کا کہنا تھا کہ پولیس کی نگرانی میں لاہور سے لایا گیا اور بیان ریکارڈ کرایا گیا آزادانہ طور پر بیان کیسے ہوسکتا ہے، لڑکے ظہیر نے اپنے پورے بیان میں کہا ہے کہ لڑکی میرے پاس آئی ہے، کیس کی مزید تحقیقات اور میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا حکم دے دیتے ہیں، عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے لیے سیکریٹری صحت کو لکھیں گے۔

عدالت نے حکم دیا کہ سیکریٹری صحت میڈیکل بورڈ سے متعلق عدالت کو بھی آگاہ کریں، بچی کو یہاں لے کر آئیں یا وہاں میڈیکل کرائیں یہ پراسکیوشن کا مسئلہ ہے۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کے والد نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ہم نے قانون کے مطابق کام کیا ہے، عدالت نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سی کلاس کی بات نہیں کررہے، صرف عمر کے تعین کے میڈیکل کے لیے بورڈ بنا رہے ہیں۔

سماعت کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں وکیل جبران ناصر نے کہا کہ لڑکی کی عمر کے سرٹیفکیٹ کو چیلنج کرنے کے ان کے حق، جو کہ ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس کے تحت دعا زہرہ کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا، اس کا احترام کیا گیا۔

دعا زہرا کیس کے تفتیشی افسر شوکت شاہانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظہیر پر اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا، ظہیر کو ہم نے حفاظتی تحویل میں لیا، لڑکی بیان کے بعد ظہیر پر اغوا مقدمہ نہیں بنتا، ہم نے کیس میں ہر پہلو پر تفتیشی کی ہے لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے۔

تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی سامنے آنے بعد مزید جائزہ لیا جائے گا دعا اور ظہیر کی پب جی کے ذریعے دوستی ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دعا زہرہ کے والد کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ والدین میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے مناسب فورم سے رجوع کرسکتے ہیں یا اگر آپ کوئی ریلیف لینا چاہتے ہیں، آپ کو سول عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کیس: عدالت کا آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم

30 مئی کو دعا زہرہ کی والدہ کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران لڑکی کی بازیابی میں ناکامی پر عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوسرا افسر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم 17 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کی جانب سے اپنے اغوا سے متعلق بیان حلفی دینے کے بعد کیس کو نمٹاتے ہوئے اسے شوہر کے ساتھ رہنے یا والدین کے ساتھ جانے سے متعلق اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں