افغانستان: زلزلے سے بچ جانے والے آفٹر شاکس کے سبب غیرمحفوظ ہیں، افغان حکام

28 جون 2022
حکام نے کہا کہ لوگوں کے پاس رہنے کے لیے پناہ گاہیں نہیں ہیں جن میں بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں —فوٹو: رائٹرز
حکام نے کہا کہ لوگوں کے پاس رہنے کے لیے پناہ گاہیں نہیں ہیں جن میں بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں —فوٹو: رائٹرز

افغانستان کے پہاڑی علاقوں میں گزشتہ ہفتے آنے والے تباہ کن زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقے میں ’آفٹر شاکس‘ ابھی بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، متاثرہ علاقہ زندہ بچ جانے والوں کے لیے غیر محفوظ ہوگیا ہے جبکہ حکام زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دہائیوں میں سب سے زیادہ تباہ کن زلزلہ گزشتہ ہفتے بدھ کو پاکستان کی سرحد کے قریب جنوب مشرقی علاقے میں آیا جس کے نتیجے میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک، 3 ہزار زخمی ہوگئے تھے جبکہ 10 ہزار گھر تباہ ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں 6.1 شدت کا زلزلہ، ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار ہوگئی

اقوام متحدہ کے ہیومنٹرین کے دفتر ( او سی ایچ اے) سے جاری بیان کے مطابق تباہ کن زلزے میں 155 بچے جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ تقریباً 250 بچے زخمی اور 65 یتیم ہو چکے ہیں۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر صحت عامہ قلندر عباد نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے ابھی تک محفوظ نہیں ہیں کیونکہ علاقے میں ہلکے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔

حکام کے مطابق جمعہ کو آنے والے آفٹر شاکس میں پانچ افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوئے تھی جبکہ بعد میں آنے والے جھٹکوں میں زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے بدھ کو آنے والے زلزلے میں تباہ ہونے والے گھر رہنے کے قابل نہیں تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو خیموں میں رہنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب آنے والے کچھ ہفتوں میں پہاڑوں پر پارہ تیزی سے گرے گا جس نے حکام کے لیے ایک نیا چیلنج پیدا کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان زلزلہ: طبی امداد، دیگر بنیادی اشیا کی ضرورت ہے، افغان حکام

حکام نے کہا کہ لوگوں کے پاس رہنے کے لیے پناہ گاہیں نہیں ہیں، جن میں بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں، اس لیے ہم عالمی برادری سے توجہ دینے کی گزارش کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں آنے والا یہ تباہ کن زلزلہ سخت اسلامی نظام کے حامی طالبان کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے جن سے کئی غیر ملکی حکومتوں نے گزشتہ سال اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے انسانی حقوق کے بارے میں خدشات کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان کے حکومتی اداروں اور بینکوں پر پابندیوں نے ایک ایسے ملک کے لیے براہ راست امداد کو منقطع کردیا ہے جو 6.1 شدت کے زلزلے سے قبل ہی قحط سمیت انسانی بحران کا سامنا کر رہا تھا۔

اقوام متحدہ اور پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک نے متاثرہ علاقے میں امداد بھیجی ہے۔

ایک افغان امدادی ایجنسی نے پیر کے روز زلزلے سے بچ جانے والوں کے لیے نقد رقم کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس خوراک کو ذخیرہ کرنے کے لیے ان کے پاس جگہ نہیں ہے جبکہ اس کے پاس کافی خیمے ہیں اور یہ امداد زلزلے سے متاثر دیہاتیوں کے لیے اپنی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوگی۔

افغان ہلال احمر سوسائٹی کے نائب سربراہ ملا نوردین ترابی نے صحافیوں کو بتایا کہ لوگ علاقوں میں نقد رقم مانگتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں کافی امداد ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان ہلال احمر سوسائٹی کے پاس کھانا ذخیرہ کرنے کی جگہ نہیں ہے اور ان کے پاس متاثرین کو دینے کے لیے کافی خیمے بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: تصاویر: افغانستان میں بدترین زلزلے سے نقصانات

انہوں نے کہا کہ نقد رقم ان پسماندگان کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہو گی جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور اگر عطیہ دہندگان متاثرین کے لیے رقم کی شفافیت سے تقسیم کرنے کے بارے میں فکر مند ہوں تو افغان ہلال احمر سوسائٹی رقم کی تقسیم میں مدد کر سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیومنٹرین دفتر نے اتوار کے روز اپنے تازہ ترین بلیٹن میں اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ متاثر علاقوں میں خیموں کی کمی پر قابو پا لیا گیا ہے اور گروپ خوراک، صحت کی کٹس اور نقدی رقم سمیت مختلف امداد تقسیم کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی لاجسٹک مسائل باقی ہیں جن میں موبائل فون نیٹ ورک کی کمی اور کچھ علاقوں میں سڑک کی خراب حالت کی وجہ سے روابط میں مشکلات کا سامنا بھی شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں