لاپتا افراد سے متعلق بل تاحال ’لاپتا‘ ہے، چیئرمین قائمہ کمیٹی

اپ ڈیٹ 29 جون 2022
انسانی حقوق کمیٹی نے انکشاف کیا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل کا تاحال سراغ نہ مل سکا — فائل فوٹو: سینیٹ ویب سائٹ
انسانی حقوق کمیٹی نے انکشاف کیا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل کا تاحال سراغ نہ مل سکا — فائل فوٹو: سینیٹ ویب سائٹ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اجلاس میں لاپتا افراد سے متعلق بل کے ’لاپتا‘ ہونے پر سوالات اٹھا دیے۔

واضح رہے کہ لاپتہ افراد پر بل، فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2021، 8 نومبر 2021 کو قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا جس کا مقصد پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم کرنا ہے۔

جنوری میں انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے انکشاف کیا تھا کہ یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں بھیجا گیا جہاں سے یہ غائب ہو گیا تھا۔

گزشتہ ماہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بل کے حوالے سے انہیں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ہیڈ کوارٹرز میں حاضر ہونے کو کہا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں بل پیش ہونے کے بعد اسے داخلہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا جہاں بل کی شقوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ یہ بل سینیٹ تک آتے آتے ہی غائب ہوگیا۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے متعلق سفارشات تیار

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ولید اقبال کی صدارت میں ہوا جس کے ایجنڈے میں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنان کی گرفتاریوں، اغوا اور ہراساں کرنے کا معاملہ شامل تھا۔

اجلاس میں پنجاب پولیس کے افسران اور آئی جی اسلام آباد سمیت انسانی حقوق کے عہدیداروں نے شرکت کی۔

دوران اجلاس جب لاپتا افراد سے متعلق بل کا ذکر ہوا تو چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی نے انکشاف کیا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل کا تاحال سراغ نہیں مل سکا۔

اجلاس میں شریک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے لاپتا افراد سے متعلق معاملہ اٹھایا اور کمیٹی سے پوچھا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل گم تھا، اس کا کیا ہوا؟ جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے انکشاف کیا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل تاحال لاپتا ہے۔

دوسری جانب وزارت انسانی حقوق کے عہدیدار بھی بل سے متعلق لاعلم تھے اور انہوں نے اجلاس میں کہا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل کا معلوم نہیں کہ کہاں ہے۔

دوران اجلاس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے لاپتا افراد سے متعلق بل کے لاپتا ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد پر بنے بل کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی؟

سینیٹر مشاہد حسین سید نے سوال اٹھایا کہ لاپتا افراد کا بل کہاں غائب ہوگیا ہے اور بتایا جائے کہ لاپتا افراد سے متعلق بل کس نے غائب کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: چھ ماہ میں 200 لاپتہ افراد بازیاب ہوئے، وزیر داخلہ بلوچستان کا دعویٰ

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا تھا اور متعلقہ کمیٹی کے بعد سینیٹ سیکریٹریٹ پہنچا تھا مگر بل سینیٹ سیکریٹریٹ سے غائب ہوگیا ہے، جس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مطلب گمشدہ لوگوں کا بل گمشدہ ہوگیا ہے۔

تاہم سیکریٹری قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق رابعہ انور نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد سے متعلق بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا ہے اور وزارت داخلہ اور پارلیمانی امور کو کہا ہے کہ سینیٹ سیکریٹریٹ کے ساتھ معاملہ اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں وزارتوں کو کہا ہے کہ لاپتا افراد سے متعلق بل تلاش کریں۔

دوران اجلاس ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ لانگ مارچ کے دوران ہمارے 41 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے اور ہر لانگ مارچ میں ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے تو کیا ہمارے انسانی حقوق نہیں ہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ 2014 کا دھرنا دہشت کے لیے تھا، اس میں بھی پولیس پر تشدد ہوا تھا۔

سینیٹر عینی مری نے کہا کہ عمران خان کے اس دھرنے میں جو لوگ آئے تھے ان کے پاس اسلحہ تھا اور عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ لوگ مسلح تھے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ 2014 کا دھرنا اسپانسرڈ تھا، پوری پارلیمنٹ کو یرغمال بنا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بیان بازی نہیں عملی اقدامات کریں، لاپتا افراد کے لواحقین کا مطالبہ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی عمران خان کے 2014 کے دھرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2014 میں پولیس اہلکاروں کو شاہراہ دستور پر لٹا کر مارا گیا تھا اور ملٹری سیکریٹری نے وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ تمام راستے بند ہیں اور میں نے ہیلی کاپٹر منگوا لیا کیونکہ ایک یہی راستہ بچا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس دھرنے کے دوران جب میاں صاحب سے کہا گیا کہ آپ یہاں سے نکلیں کیونکہ دھرنے والے افراد کسی بھی وقت وزیر اعظم ہاؤس پہنچ سکتے ہیں تو اس پر میاں صاحب نے کہا کہ میں کہیں نہیں جارہا، اگر اس طرح ہوا تو وزیر اعظم کیسے بنیں گے۔

لاپتا افراد بل

لاپتا افراد بل اس وقت کے وزیر داخلہ نے جون 2021 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ ابتدائی طور پر کسی شخص کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کے بارے میں غلط شکایت یا غلط معلومات درج کرنے سے متعلق کوئی شق نہیں تھی، بعد ازاں بل میں ایک شق شامل کی گئی اور اسے ایک قابل تعزیر جرم قرار دینے کے لیے پانچ سال تک قید کی سزا اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان کی یقین دہانی کے بعد لاپتہ افراد گھروں کو لوٹنے لگے

پیش کیا گیا بل پاکستان پینل کوڈ میں ’جبری گمشدگی‘ کی وضاحت کے لیے ایک نیا سیکشن 52 ’بی‘ داخل کرنے کی اجازت فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں ’جبری گمشدگی‘ کو جرم قرار دینے کے لیے قانون کا نفاذ انسانی حقوق کے اداروں، خاص طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دیرینہ مطالبہ ہے۔

دہشت گردوں اور باغیوں سے لڑنے کے بہانے بلوچستان اور سابق فاٹا کے پسماندہ علاقوں میں کئی سال قبل شروع ہونے والی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گزشتہ برسوں سے اسلام آباد سمیت بڑے شہری مراکز تک پہنچ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: ’28 لاپتہ افراد واپس آگئے ہیں

مارچ 2011 میں قائم کردہ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن لاپتا افراد میں سے متعدد لاگوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن انسانی حقوق کے کارکنان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے دوسرے حصے میں، یعنی ان اغوا کے مرتکب افراد کی شناخت اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کچھ انسانی حقوق کے کارکنوں کا اندازہ ہے کہ کمیشن کے پاس اب بھی 2 ہزار سے زیادہ ایسے مقدمات ہیں جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں