کابل: نمازیوں سے بھری مسجد میں دھماکا، 21 افراد جاں بحق

اپ ڈیٹ 18 اگست 2022
ابھی تک کسی عسکری گروپ نے بدھ کی شام ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی — تصویر: رائٹرز
ابھی تک کسی عسکری گروپ نے بدھ کی شام ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی — تصویر: رائٹرز

افغان دارالحکومت کابل میں نمازیوں سے بھری مسجد میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 21 افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے بتایا کہ دھماکا مسجد کے اندر رکھے گئے دھماکا خیز مواد سے ہوا جس کے نتیجے میں 21 افراد جاں بحق اور 33 زخمی ہوگئے۔

خیال رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پورے افغانستان میں بم دھماکوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان رہنما شیخ رحیم اللہ حقانی بم دھماکے میں جاں بحق

تاہم حالیہ مہینوں میں ایسے کئی حملوں، جس میں اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جن میں سے متعدد کی ذمہ داری 'داعش' نے قبول کی ہے۔

ابھی تک کسی عسکری گروپ نے بدھ کی شام ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

کابل میں ایک ہسپتال چلانے والی اطالوی غیر سرکاری تنظیم ایمرجنسی نے ایک بیان میں بتایا کہ اس کے پاس دھماکے سے متاثرہ 27 افراد لائے گئے جن میں تین ہلاکتیں بھی شامل تھیں۔

تنظیم نے ایک ای میل کے ذریعے کہا کہ زیادہ تر مریض 'شیل اور جلنے کی چوٹوں سے زخمی ہوئے تھے'۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کابل ایک اور دھماکے سے گونج اٹھا، مزید 8 افراد ہلاک

بعد ازاں ایک ٹوئٹ میں ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ جن زخمیوں کا علاج کیا گیا ان میں 5 بچے بھی شامل تھے جس میں سے ایک کی عمر 7 سال تھی۔

یہ دھماکا طالبان کے سرکردہ رہنما رحیم اللہ حقانی پر حملے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ہوا، جو کابل میں اپنے مدرسے میں اپنے بھائی کے ساتھ مارے گئے تھے۔

رحیم اللہ حقانی داعش کے خلاف سخت تقاریر کے لیے معروف تھے، جس نے بعد میں ان پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

یہ دہشت گرد گروپ بنیادی طور پر اقلیتی برادریوں جیسے اہل تشیع، صوفیوں اور سکھوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: کابل میں منی وین میں دھماکے سے 6 افراد ہلاک

طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے داعش کو شکست دے دی ہے۔

تاہم ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ سخت گیر گروپ طالبان کے لیے اب بھی ایک اہم سیکیورٹی چیلنج بنا ہوا ہے، حالانکہ داعش، طالبان کی طرح ہی ایک سنی گروپ ہے لیکن دونوں سخت حریف ہیں اور نظریاتی بنیادوں پر بہت مختلف ہیں۔

کابل میں دھماکا ایسے وقت ہوا جب جمعرات کو طالبان کے سینئر رہنما جنوبی شہر قندھار میں 2 ہزار سے زائد مذہبی علما اور عمائدین کے ایک بڑے اجتماع کی قیادت کرنے والے ہیں، جو تحریک کی اصل طاقت کا گڑھ ہے۔

میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس 'کانفرنس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں