تاجر برادری کا بھارت سے سبزیوں کی درآمدات فوری شروع کرنے پر زور

اپ ڈیٹ 30 اگست 2022
لاہور کی تاجر برادری حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد پُر امید نظر آئی—فوٹو : ڈان
لاہور کی تاجر برادری حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد پُر امید نظر آئی—فوٹو : ڈان

ملک میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کی تباہی اور مختلف سبزیوں کی شدید قلت کے پیش نظر وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حکومت عوام پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے سبزیوں اور دیگر خوردنی اشیا کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس اعلان کے بعد تاجر برادری نے اس تجویز کی حمایت ظاہر کی لیکن حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ تاجروں کو بھارت سے تیار مال نہیں بلکہ صرف کچی سبزیوں کی درآمد تک محدود رہنے کا پابند کرے۔

لاہور کی تاجر برادری اس اعلان کے بعد پُرامید نظر آئی، صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میاں نعمان کبیر نے بتایا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری طلب کو پورا کرنے اور ٹماٹر، پیاز اور دیگر ضروری سبزیوں کی بڑھتی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے بھارتی پنجاب سے سبزیوں کی درآمد فوری طور پر شروع کی جانی چاہیے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘لیکن حکومت کو درآمدات کی اجازت صرف سبزیوں تک محدود رکھنی چاہیے اور ان کی تیار شدہ مصنوعات مثلاً ٹماٹو کیچپ، فرنچ فرائز، پیاز کا پاؤڈر اور دیگر سبزیوں یا پھلوں سے جڑی اشیا پر پابندی برقرار رکھنی چاہیے’۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت سے اشیائے خورونوش درآمد کرنے پر غور کرسکتے ہیں، مفتاح اسمٰعیل

علاوہ ازیں لاہور کی مارکیٹ کمیٹی کے سیکریٹری شہزاد چیمہ نے کہا کہ جو بھی تجویز زیر غور ہے اسے فوری طور پر حتمی شکل دی جائے، اگر حکومت اس تجویز پر ابہام برقرار رکھتی ہے تو آنے والے روز میں ٹماٹر، پیاز وغیرہ کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی کیونکہ انہیں کابل سے لانے والے درآمد کنندگان نے خریداری سست کرنا شروع کر دی ہے’۔

کابل میں موجود لاہور کے ایک درآمد کنندہ یاسر بھٹی کے مطابق حکومت کو ابتدائی طور پر ٹماٹر، پیاز اور دیگر ضروری سبزیاں درآمد کرکے بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنی چاہیے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ ’اس وقت کابل میں سیلاب کی وجہ سے ٹماٹر اور پیاز کے نرخ بڑھ رہے ہیں اور معیار بھی اچھا نہیں ہے، لہذا اگر ہم اگلے 10 روز کے اندر ان کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں بھارت سے درآمد کرنا شروع کر دینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق

ترجمان ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے بتایا کہ وہ پیاز اور ٹماٹر کی درآمد کے حوالے سے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں ابھی تک متعلقہ وزارت سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے، جیسے ہی ہمیں کوئی اطلاع ملے گی تو ہماری فروٹ اور ویجیٹیبل ڈویژن اس پر کام شروع کر دے گی’۔

واضح رہے کہ 9 اگست 2019 کو وفاقی کابینہ نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے یک طرفہ اقدام کے بعد پڑوسی ملک سے دوطرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا، بھارتی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا تھا۔

21 فروری 2022 کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق سابق مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت وقت کی اہم ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے۔

مارچ 2021 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اعلان کیا تھا کہ وہ نجی سیکٹر کو اجازت دیں کہ بھارت سے 5 لاکھ ٹن چینی اور کپاس واہگہ بارڈر کے ذریعے درآمد کریں، تاہم موجودہ اتحادی حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کی کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید کی گئی تھی جس کے بعد چند دنوں میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔

11 مئی 2022 کو رواں برس کومت تبدیل ہونے کے بعد وفاقی وزارت تجارت نے کہا تھا کہ ٹریڈ منسٹر کی تعیناتی کو بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی سے نہ جوڑا جائے کیونکہ تجارتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے جاری بیان میں تجارت معطل ہونے کے باوجود بھارت میں ٹریڈ منسٹر تعینات کرنے کے فیصلے کی سرکاری سطح پر تصدیق کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل

یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا تھا جب سوشل میڈیا پر بڑے پیانے پر قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بھارت سے تجارت بحال کرنے پر غور کررہی ہے۔

16 جون کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دیگر ممالک خصوصاً بھارت اور امریکہ کے ساتھ تجارت اور روابط کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار تھا۔

اپنی تقریر میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات پر زیادہ زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقتصادی سفارت کاری اور دونوں ممالک کے درمیان رابطوں پر توجہ دی جائے۔

وزیر خارجہ کی دلیل یہ تھی کہ جنگ اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات اور اس کے مسلم مخالف ایجنڈے کے باوجود رابطے منقطع رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

17 جون 2022 کو دفتر خارجہ نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارت کے ساتھ تعلقات سے متعلق دیے گئے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جب کہ موجودہ پالیسی پر قومی اتفاق رائے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں