گزشتہ 4 سالوں میں ہراسانی کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کا انکشاف

10 ستمبر 2022
ملک میں 2010 سے 2018 کے دوران ہراسانی کے 500 کیسز رپورٹ ہوئے— فوٹو: ڈان
ملک میں 2010 سے 2018 کے دوران ہراسانی کے 500 کیسز رپورٹ ہوئے— فوٹو: ڈان

پاکستان میں ہراساں کیے جانے سے متعلق رجسٹرڈ کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ سے متعلق وفاقی محتسب سیکریٹریٹ(ایف او ایس پی اے ایچ) کے دفتر کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سالوں میں ہراساں کیے جانے کی 5 ہزار 8 شکایات موصول ہوئیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایوان صدر میں ایف او ایس پی اے ایچ کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں ہراساں کرنے سے متعلق کیسز کی تفصیلات بتائی گئیں، یہ رپورٹ اقوام متحدہ (یو این) خواتین کے تعاون سے جاری کی گئی ہے، اس موقع پر سفارتی برادری کے ارکان اور صحافی بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ 4 برس میں 14 ہزار سے زائد ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2010 اور 2013 کے درمیان 84 کیسز رجسٹر کیے گئے جبکہ سنہ 2013 سے 2018 کے درمیان 398 کیسز رجسٹر ہوئے، سنہ 2018 سے 2022 کے درمیان 5 ہزار 8 کیسز رجسٹر کیے گئے جن میں سے 3 ہزار 698 کیسز خواتین اور ایک ہزار 310 کیسز مردوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کُل 5 ہزار 8 کیسز میں ایک ہزار 689 کیسز سرکاری اداروں میں کام کرنے والے مرد اور خواتین جبکہ 3 ہزار 319 کیسز نجی اداروں میں کام کرنے والے مرد اور خواتین کی جانب سے وفاقی محتسب کے دفتر میں رپورٹ کیے۔

اس کے علاوہ کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے 275 کیسز رپورٹ ہوئے، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 4 ہزار 733 کیسز کی انکوائری مکمل کرکے کیسز کو کامیابی سے بند کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: خاتون ہاؤس افسر کا یونیورسٹی اہلکاروں پر ہراسانی، قتل کی کوشش کا الزام

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خواتین کی 50 فیصد آبادی کو کاروبار، تجارت اور خدمات کے شعبے میں موثر کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے انہیں معیاری تعلیم، ہنر، صحت، غذا، مالی و معاشی طور پر بااختیار بنانے، وراثتی املاک کے حقوق کے تحفظ اور کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی سے پاک ماحول فراہم کر کے راغب کیا جا سکتا ہے۔

صدر عارف علوی نے ملک بھر کے سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کیا اور جاں بحق افراد کے لیے دعا بھی کی، شرکا نے سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی تھی۔

اس موقع پر وفاقی محتسب برائے تحفظ ہراسانی کشمالہ خان، پاکستان میں اقوام متحدہ کی خواتین کی نمائندہ شرمیلا رسول اور یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر عدنان رفیق نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ خواتین کے حوالے سے سماجی اور ثقافتی رویوں اور فکری تعصبات کو ختم کرنا ہے، خواتین کو معاشی اور مالیاتی بااختیارات بنانے کے لیے اُن کو روزگار فراہم کرنا اور شہریوں کو اخلاقی اقدار کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت مردوں اور عورتوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق قوانین بہت نرم ہیں'

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کاروبار، تجارت اور خدمات کے شعبوں میں خواتین کو مساوی مواقع کی فراہمی اور کام کرنے والے اداروں میں محفوظ ماحول پیدا کر کے معیشت میں خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صرف 24 فیصد خواتین ملکی معیشت کے روایتی اور غیر روایتی شعبوں میں کام کر رہی ہیں، یہ مردوں کے مقابلے میں بہت کم شرح ہے جن کا حصہ معیشت میں 90 فیصد ہے، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی معیشت میں اکثریت کے بغیر کوئی بھی ملک بامعنی سماجی اور اقتصادی ترقی نہیں کرسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام اور پاکستان کے آئین کے مطابق خواتین سے مساوی شہری کے طور پر سلوک کیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا کہ وراثتی املاک میں خواتین کو حقوق سے محروم رکھنے سے روکنے کے لیے خواتین کی جانب سے اپنی وراثتی اراضی رضاکارانہ طور پر اپنے خاندان کے کسی فرد کے سپرد کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کالجوں میں 80 فیصد سے زیادہ داخلے خواتین لیتی ہیں لیکن سماجی اور گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ملازمت حاصل کرنے کی شرح بہت کم ہے، صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ اس رجحان کو خواتین، ان کے خاندان اور حکومت کے ذریعے سے جلد از جلد تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دادو: بلیک میل کیے جانے پر ایم بی بی ایس کی طالبہ کی ’خودکشی‘

صدر نے وفاقی محتسب کے دفتر کے عزم اور خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق اپیلیں دائر کرنے، آئی ٹی کے ذریعے متاثرین کے بیانات لینے، شواہد اکٹھا کرنے اور اس کے حل کے لیے پالیسیاں متعارف کرنے پر ادارے کو سراہا، یاد رہے سنہ 2010 سے 2018 میں ہراسانی کے 500 کیسز جبکہ 2018 سے 2022 کے درمیان 5 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

اس سے قبل کشمالہ خان نے کہا تھا کہ وفاقی محتسب خودمختار عدالتی ادارے کے طور پر خواتین کو کام کرنے کی جگہ پر ہراسگی اور وراثتی املاک کے حقوق سے متعلق 60 دن میں مفت انصاف فراہم کرتا ہے، خواتین کے لیے مخصوص ادارے کا قیام خواتین کے حقوق کے تحفظ اور افرادی قوت میں شراکت داری کے لیے ریاست کے عزم کا عکاس ہے۔

شرمیلا رسول کا کہنا تھا کہ افرادی قوت میں خواتین کی شراکت میں اضافے سے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرسکیں گے۔

مزید پڑھیں: خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کی مہم ’رکو اور روکو‘

انسٹیٹیوٹ آف پیس امریکا کے کنٹری ڈائریکٹر عدنان رفیق نے کہا کہ معاشرے کے ارکان کو خواتین کو نقل و حرکت کے دوران اور کام کی جگہ پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے۔

عدنان رفیق کا کہنا تھا کہ خواتین کی نقل و حرکت کے دوران اور کام کی جگہ پر معاشرے کے سبھی افراد کو اپنے فرائض انجام دینے چاہیئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں