امریکا: ڈیموکریٹک رہنماؤں کی ہندوتوا گروپوں پر تنقید، تحقیقات کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2022
2002 کے گجرات فسادات میں تقریباً 2ہ زار مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا — فوٹو/ اے پی
2002 کے گجرات فسادات میں تقریباً 2ہ زار مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا — فوٹو/ اے پی

نیو جرسی کے ایک ٹاؤن کے ڈیموکریٹک پارٹی یونٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں امریکا میں موجود ہندوتوا تنظیموں کو غیر ملکی نفرت انگیز گروہوں کی 'مقامی شاخیں' قرار دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قرارداد میں کئی دائیں بازو کے ہندو گروپوں کا نام دیا گیا ہے جن میں ہندو امریکن فاؤنڈیشن (ایچ اے ایف)، وشوا ہندو پریشد آف امریکا (وی ایچ پی اے)، سیوا انٹرنیشنل، انفینٹی فاؤنڈیشن اور ایکل ودیالیہ فاؤنڈیشن شامل ہیں جنہیں امریکا میں ہندو بالادستی کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں قرار دیا گیا ہے۔

رواں ہفتے ٹینیک ڈیموکریٹک میونسپل کمیٹی (ٹی ڈی ایم سی) کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد میں نیو جرسی کے امریکی سینیٹرز، کانگریس رہنماؤں اور گورنر فل مرفی پر زور دیا گیا کہ وہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) سے کہیں کہ وہ امریکا میں ٹیکس سے استثنیٰ کا درجہ رکھنے والے ان غیر ملکی نفرت انگیز گروہوں سے متعلق تحقیقات کریں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا آزادی اور انسانی حقوق کے مسائل پر بھارت سے بات کرے گا، جیک سلیوان

ٹی ڈی ایم سی نے کہا کہ ہندو قوم پرست تنظیمیں ہر سطح کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور وہ امریکی ایوان کی قرارداد 417 کو روکنے میں انتہائی مؤثر رہیں، جو کہ ہندو قوم پرست تحریک کے خلاف انتباہ کی کانگریس کی کوشش تھی۔

ایوان کی قرارداد 417 جو 2013 میں امریکی کانگریس میں لائی گئی تھی، میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکی ویزا دینے سے انکار جاری رکھنے کی کوشش کی گئی، اس قرارداد کو ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں کے قانون سازوں نے حمایت کی تھی۔

قرارداد میں بھارت سے مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا اور امریکی حکومت سے کہا گیا کہ وہ اس معاملے کو دوطرفہ اسٹریٹجک مذاکرات میں بھی شامل کرے۔

ٹی ڈی ایم سی کی قرارداد میں کہا گیا کہ زیادہ تر مقامی امریکی منتخب عہدیدار ہندو انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے آگاہ اور تیار نہیں رہتے۔

مزید پڑھیں: ’بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکی نگرانی میں اضافہ ہوا ہے‘

قرارداد میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا میں مقیم دائیں بازو کے ہندو گروپوں کے نازی ازم اور یورپی فاشزم کا نظریہ رکھنے والی بھارتی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے براہ راست اور بالواسطہ تعلقات ہیں۔

قرارداد میں نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز باب مینینڈیز، کوری بکر اور کانگریس مین جوش گوٹیمر پر زور دیا گیا ہے کہ وہ امریکا میں غیر ملکی متشدد انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے 2015 کے ویزا ویور پروگرام میں بہتری اور ٹیررسٹ ٹریول پریوینشن ایکٹ پر نظرثانی کریں۔

2005 میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے امریکی ویزے کے لیے درخواست دی لیکن 2002 کے فسادات کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے ان کی درخواست کو مسترد کردیا گیا تھا جس میں بھارتی ریاست میں تقریباً 2 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا اور ان کے کاروبار اور گھروں تباہ ہوگئے تھے، 2016 میں اوباما انتظامیہ نے ویزا بحال کرنے کے لیے ویور فیسلیٹی کا استعمال کیا۔

ٹی ڈی ایم سی کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ معمول کے مطابق اقلیتوں کے خلاف بھارت میں نفرت پھیلانے والے انتہا پسندوں کو امریکا میں بھی بڑے پروگراموں اور مندروں میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ: پاکستان، بھارت کی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے پر تنقید

قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ٹی ڈی ایم سی کے رکن ڈینیئل روزن بلم نے انڈین ۔ امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) کو بتایا کہ امریکیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس کی جڑیں بھی وہیں سے نکلتی ہیں جہاں سے اطالوی فاشزم اور جرمن نازی ازم کی جڑیں نکلیں۔

ٹی ڈی ایم سی کے ایک اور رکن مارگٹ فشر نے کہا کہ لوگ گاندھی کی تعلیمات کو ہندو قوم پرستی کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں جن میں بلیک لائیوز میٹر، امریکن مسلمز فار ڈیموکریسی اور ہندوز فار ہیومن رائٹس شامل ہیں، انہوں نے نیو جرسی میں منتخب عہدیداروں میں اسلاموفوبک ہندو بالادستی کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں