اڈیالہ جیل حراستی مرکز قرار، قیدیوں سے بدترین سلوک کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

28 ستمبر 2022
کمیٹی جیل کے نظام میں بڑی خامیوں اور انتظامی کوتاہیوں کی نشاندہی کرے گی جو پورے نظام کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں— فائل فوٹو: اے پی
کمیٹی جیل کے نظام میں بڑی خامیوں اور انتظامی کوتاہیوں کی نشاندہی کرے گی جو پورے نظام کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں— فائل فوٹو: اے پی

اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی کی شکایات کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے راولپنڈی جیل کے دورے کے بعد فیصل آباد جیل کے ڈی آئی جی سعید اللہ گوندل کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی نے راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے سلسلے میں تشدد، بدعنوانی اور الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی جی جیل آفس کے سپرنٹنڈنٹ اشتیاق گل، ہائی سیکیورٹی جیل ساہیوال کے سپرنٹنڈنٹ فرخ سلطان، گوجرانوالہ جیل کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ اختر اقبال، گوجرانوالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عارف شہزاد اور سرگودھا جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عبدالباسط فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے اراکین میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر اڈیالہ جیل کے سینئر اہلکار، 27 وارڈرز کا تبادلہ

کمیٹی جیل کے نظام میں بڑی خامیوں اور انتظامی کوتاہیوں کی نشاندہی کرے گی جو پورے نظام کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں، کمیٹی اپنی سطح پر بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی اور مزید بہتری کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے گی۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی جیل کی سیکیورٹی، قیدیوں کو دی جانے والی سزاؤں، قیدیوں کو سزا کے سیلوں سے نکالنے، کچھ بااثر قیدیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے افسروں/اہلکاروں کے خلاف انتظامی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے معاملات کا بھی جائزہ لے گی اور قیدیوں کی بہبود کے لیے اٹھائے گئے یا درکار اقدامات کی تجویز بھی پیش کرے گی۔

معلوم ہوا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اڈیالہ جیل کے دورے کے دوران قیدیوں اور جیل عملے کے بیانات ریکارڈ کرے گی اور جیل میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اور لاگ بک اور ریکارڈ کا بھی جائزہ لے گی۔

اڈیالہ جیل کی بدنامی

اڈیالہ جیل قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور مبینہ طور پر بدعنوان اہلکاروں کی وجہ سے شہ سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہے، حال ہی میں 21 سالہ قیدی شہاب حسین کی والدہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ جیل سپرنٹنڈنٹ اور دیگر عملے نے ان کے بیٹے پر تشدد کیا اور اس کی انگلی توڑ دی۔

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار ان کے بیٹے کو جیل کے اہلکاروں نے برہنہ حالت میں کھڑا کردیا اور 5ہزار روپے رشوت کا مطالبہ کیا، اس غیر انسانی سلوک کے نتیجے میں 9 ستمبر کو ان کے بیٹے نے بھوک ہڑتال کر دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ساتھی قیدی پر جنسی زیادتی کا الزام، اڈیالہ جیل کے 11 عہدیدار معطل

اسی طرح حال ہی میں ایک قیدی پر تشدد کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی اور یہ معاملہ جسٹس اطہر من اللہ کے علم میں لایا گیا تھا جس پر وہ سینٹرل جیل گئے تھے، ان کے ساتھ اسلام آباد کے دو جج بھی تھے اور انہوں نے ڈھائی گھنٹے قیام کے دوران قیدیوں سے ان کے مسائل پوچھے تھے۔

چیف جسٹس کو قیدیوں کی شکایات کے جواب میں اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے آئی جی جیل خانہ جات شاہد سلیم بیگ نے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، دو ہیڈ وارڈرز اور چار وارڈرز کو معطل کر دیا تھا، اسی دوران راولپنڈی ریجن کے ڈی آئی جی کامران انجم نے 10 ہیڈ وارڈرز اور 17 وارڈرز کو ریجن کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا تھا۔

جیل حکام کے اس اقدام کو میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بڑے بڑے افسر ماتحتوں پر الزام لگا کر خود ان الزامات سے بری ہونا چاہتے ہیں۔

اڈیالہ جیل حراستی مرکز قرار

دوسری جانب ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے منگل کو راولپنڈی کی سینٹرل جیل اڈیالہ میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جیل کو حراستی مرکز قرار دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منگل کو امتیاز بی بی کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہے تھے جس میں انہوں نے اپنے بیٹے پر حراست میں تشدد کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھیں: اڈیالہ جیل سے 17 غیرملکی قیدیوں کو جلد رہا کیا جائے گا

چیف جسٹس نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کی جانب سے تشدد کے الزام پر رپورٹس کا جائزہ لیا، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کمیشن اور پمز کے نمائندوں کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست میں درج سنگین الزامات بادی النظر میں بے بنیاد نہیں ہیں، سماعت کی آخری تاریخ کو جمع کرائی گئی خفیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا سینٹرل جیل، راولپنڈی کا انتظام قانون کے تحت جیل کے نظام کے بجائے ایک ’حراستی کیمپ‘ کے طور پر کیا جا رہا ہے، یہ ذکر کیا جا سکتا ہے کہ “حراستی کیمپ کی اصطلاح سے مراد وہ کیمپ ہے جس میں عام طور پر لوگوں کو انتہائی بدترین حالات میں حراست یا قید میں رکھا جاتا ہے۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

اس کے بعد عدالت نے انسانی حقوق کے قومی کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سرکاری ملازمین کی طرف سے اس طرح کی سنگین خلاف ورزیوں کی روک تھام میں لاپرواہی کی شکایات کی تحقیقات کرے۔

سیکریٹری وزارت انسانی حقوق افضل لطیف نے عدالت کو بتایا کہ جیلوں میں اصلاحات کے حوالے سے عدالت کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل جیل ہسپتال منتقل، سپرنٹنڈنٹ کا تبادلہ

انہوں نے کہا کہ ان سفارشات پر عمل درآمد کے لیے تشکیل دیا گیا کمیشن جلد ہی اپنا اجلاس بلائے گا، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں