برکینا فاسو: فوج کا اپنے صدر کو برطرف کرکے حکومت پر سال میں دوسری مرتبہ قبضہ

01 اکتوبر 2022
برکینا فاسو کے صدر کو اپنے ہی فوجی افسران نے عہدے سے برطرف کردیا  —فوٹو: رائٹرز
برکینا فاسو کے صدر کو اپنے ہی فوجی افسران نے عہدے سے برطرف کردیا —فوٹو: رائٹرز

مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کی فوج نے ایک سال میں دوسری مرتبہ حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے اپنے صدر کو برطرف کرنے کی تصدیق کردی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’‘رائٹرز‘ کے مطابق برکینا فاسو کے فوجی افسران کی طرف سے اپنے ہی صدر کو عہدے سے برطرف کرنے کا اعلان دارالحکومت اواگاڈوگو میں ٹی وی بیان کے ذریعے جاری کیا جہاں اس سے قبل ایک فوجی کیمپ کے قریب فائرنگ، صدارتی محل کے قریب ایک دھماکا اور سرکاری ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں رکاوٹیں پیش آئیں۔

مزید پڑھیں: برکینا فاسو: فوجی مرکز، فرانس کے سفارت خانے پر حملے، متعدد ہلاک

رپورٹ کے مطابق یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو پچھلے دو برس میں مغربی اور وسطی افریقہ میں تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں جہاں انتہاپسندوں نے صحرائی علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا ہے جہاں کمزور حکومتیں ان انتہاپسندوں کو شکست دینے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

اس کے علاوہ، مالی، چاڈ اور گھانا میں بھی 2020 سے فوجی بغاوتیں جاری ہیں جس کی وجہ سے خطہ فوجی حکمرانی کی طرف جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جہاں گزشتہ دہائی کے دوران جمہوری نظام کو کسی حد تک پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ برکینا فاسو کی نئی فوجی حکومت کا سربراہ کیپٹن ابراہیم تروڑ ہیں جو اپنے فوجی افسران کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے جنہوں نے حکومت تحلیل، آئین منسوخ اور سرحدیں بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں کرفیو نافذ کردیا۔

برکینا فاسو کے برطرف کیے گے صدر کے بارے میں تاحال کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

نئے فوجی سربراہ نے کہا کہ رواں برس جنوری میں پال ہنری دامیبا کو اقتدار میں لانے والے چند فوجی افسران نے اپنے لیڈر کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ شدت پسندی اور انتہاپسندی روکنے میں ناکام تھے حالانکہ برطرف ہونے والے صدر نے بھی اس سے قبل صدر روچ کابور کو حکومت سے بے دخل کرنے کے لیے یہی اسباب بیان کیے تھے۔

ابراہیم تروڑ کی طرف سے دستخط شدہ ٹیلی ویژن پر ایک اور افسر کی طرف سے پڑھ کر سنائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر ہم نے کئی بار کوشش کی کہ صدر کو سیکیورٹی کے سوال پر دوبارہ توجہ دلائیں۔

یہ بھی پڑھیں: برکینا فاسو: دہشت گردوں کے حملے میں 11 پولیس افسران ہلاک

بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر نے فوج کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے افسران کی تجاویز مسترد کیں اور اس کے بجائے اس فوجی نظام کو جاری رکھا جو پچھلی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پال ہنری دامیبا کے اقدامات نے آہستہ آہستہ ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا اب صدر کے عزائم اس سے ہٹ رہے ہیں اس لیے ہم نے آج ان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئے حکمران کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی اسٹیک ہولڈرز کو جلد ہی ایک نیا عبوری چارٹر اپنانے اور ایک نیا سویلین یا فوجی صدر نامزد کرنے کے لیے بلایا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق برکینا فاسو کی شہری آبادی نے فوجی حکومت کو اس امید پر خوش آمدید کہا تھا کہ وہ جمہوری طور پر منتخب پیشروؤں کے برعکس باغیوں پر قابو پانے میں زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن شہریوں کی یہ امیدیں جلد ہی ختم ہو گئیں۔

مزید پڑھیں: برکینا فاسو: ہوٹل پر حملے میں28 افراد ہلاک

دہشت گردوں کی جانب سے دیہی آبادیوں پر چھاپہ مار کارروائیوں میں ہزاروں افراد مارے گئے ہیں جبکہ لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

دوسری جانب، رواں ہفتے شمالی برکینا فاسو میں ایک حملے میں کم از کم 11 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ درجنوں شہری تاحال لاپتہ ہیں۔

گزشتہ روز کی فوجی بغاوت نے مغربی افریقہ کے سیاسی بلاک اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹس کے لیے مشکل کھڑی کردی ہے جو خطے میں فوجی بغاوت کے رہنماؤں کو فوری طور پر عوامی حکمرانی کی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔

اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹس نے رواں سال جنوری میں فوجی بغاوت کے بعد برکینا فاسو کی رکنیت معطل کر دی تھی لیکن اس کے بعد دو سال کے لیے جمہوری انتخابات کی واپسی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: برکینا فاسو: چرچ پر حملے میں پادری سمیت 6 عبادت گزار ہلاک

اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ غیر آئینی طریقے سے کسی بھی طاقت کو برقرار رکھنے کے خلاف اپنی مخالفت کا اعادہ کرتے ہیں۔

اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹس نے مطالبہ کیا تھا کہ عبوری حکام کی جانب سے پہلے طے کی گئی ٹائم لائن یکم جولائی 2024 کے بعد آئین کی طرف واپسی کا احترام کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں