’حکومت جسے چاہے آرمی چیف مقرر کرے‘، اہم تعیناتی پر عمران خان کا نیا مؤقف

09 نومبر 2022
عمران خان نے کہا کہ مخلوط حکومت کو بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں—اسکرین گریب/ٹی آر ٹی/ٹوئٹر
عمران خان نے کہا کہ مخلوط حکومت کو بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں—اسکرین گریب/ٹی آر ٹی/ٹوئٹر

نئے آرمی چیف کے انتخاب سے قبل مشاورت کا بار بار مطالبہ کرنے کے بعد اب سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت کی جانب سے اس اہم تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر ایک نئے مؤقف کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کے تقرر میں آئین کے تحت صدر کا کوئی کردار نہیں، وزیر قانون

عمران خان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر ان سے یا ان کی پارٹی سے مشاورت کی جائے، عمران خان نے جواب دیا کہ ’نہیں، وہ جسے چاہیں مقرر کرسکتے ہیں‘۔

اس سے قبل گزشتہ کئی ماہ کے دوران متعدد عوامی جلسوں اور ریمارکس میں عمران خان نے کہا تھا کہ اعلیٰ فوجی عہدے پر اہم تعیناتی کے لیے شریف اور زرداری نااہل ہیں کیونکہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے چوروں کو اجازت نہیں دی جا سکتی‘۔

گزشتہ روز ایک صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دی جا رہی ہے، جواب میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’یہ ایک ارب ڈالر کا سوال ہے‘۔

مزید پڑھیں: انتخابات کروائیں، اگر جیت گئے تو پھر اپنی مرضی سے آرمی چیف کا تقرر کریں، عمران خان

عمران خان نے انکشاف کیا کہ احتساب کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہو ئے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملک کو ہموار انداز میں چلانا ہے تو وزیر اعظم کو بااختیار ہونا چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ ’مجھے فوج سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، مسائل صرف احتساب کے معاملات پر پیدا ہوئے، تاہم فوج مثبت کردار ادا کر سکتی ہے، میرا ماننا ہے کہ اگر ملک کو ہموار انداز میں چلانا ہے تو وزیر اعظم کو انتظامیہ کے ساتھ اقتدار بھی سونپا جانا چاہیے‘۔

عمران خان نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مخلوط حکومت کو بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، اتحاد کے نتیجے میں بننے والی حکومت میں وزیر اعظم کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے، دو تہائی اکثریت وزیر اعظم کو طاقت دیتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: زرداری اور نواز شریف اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، عمران خان

ڈان سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے بھی اس تاثر کی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ اپوزیشن لیڈروں کے احتساب سے ہٹ کر معیشت کو ٹھیک کرنے پر توجہ دیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹ کر اپنے لیے مصیبت کو دعوت دی۔

'مضحکہ خیز ایف آئی آر'

عمران خان نے خود پر جان لیوا حملے کی کوشش کے خلاف درج ایف آئی آر پر عدم اطمینان کا اظہار کیاکیونکہ اس ایف آئی آر میں ان کی جانب سے نامزد کردہ کسی بھی مشتبہ شخص کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’مضحکہ خیز ایف آئی آر کے معاملے پر میرے وکیل میرا مؤقف پیش کریں گے‘۔

مزید پڑھیں: وزیر آباد: لانگ مارچ میں کنٹینر پر فائرنگ، عمران خان سمیت کئی رہنما زخمی، حملہ آور گرفتار

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک سینیئر فوجی افسر کو مقدمے میں نامزد کرنے کے لیے یہ ایف آئی آر عدالت میں چیلنج کریں گے، اگر تحقیقات سے ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے، تو بیشک ان کے نام ایف آئی آر سے خارج کردیے جائیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ کرنے والے ملزم نوید احمد کا دیا گیا بیان جھوٹ تھا، میں نے حکومت پنجاب کو ہدایت دی تھی کہ وہ دوران حراست نوید احمد کی حفاظت کریں۔

علاوہ ازیں ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے پاکستان کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ انصاف کی فراہمی کے معاملے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بالآخر عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج

عمران خان نے کہا کہ انصاف اس وقت قائم ہوتا ہے جب ہر شخص، حتیٰ کہ سب سے طاقتور شخص بھی قانون کے دائرے میں لایا جاتا ہے، میں ایک صوبے کا سربراہ ہونے کے باوجود 3 لوگوں سے تفتیش نہیں کروا سکتا، تصور کریں کہ عام آدمی کے لیے کیا صورتحال ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حقیقی آزادی کی تحریک قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں آج رات (گزشتہ شب) وزیر آباد حملے کی فارنزک رپورٹ مل جائے گی جس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ جائے وقوع پر ایک سے زیادہ حملہ آور تھے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں