بیرون ملک سفر کے دوران غیر ملکی نقد کرنسی لے جانے کی حد نصف کردی گئی

یہ دونوں حدیں 18 سال سے کم عمر (نابالغ) افراد کے لیے نصف ہوں گی—فائل فوٹو : رائٹرز
یہ دونوں حدیں 18 سال سے کم عمر (نابالغ) افراد کے لیے نصف ہوں گی—فائل فوٹو : رائٹرز

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیرون ملک سفر کے دوران غیر ملکی نقد کرنسی لے جانے کی موجودہ حد کو نصف کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہریوں کے لیے فی سفر 5 ہزار ڈالر (یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں اس کے مساوی رقم) اور سالانہ 30 ہزار ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: مسافروں کیلئے پاکستانی کرنسی کی حد 10 ہزار روپے مقرر

یہ دونوں حدیں 18 سال سے کم عمر (نابالغ) افراد کے لیے نصف ہوں گی، یعنی فی سفر ڈھائی ہزار ڈالر اور سالانہ 15 ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت ہوگی۔

تاہم افغانستان کا سفر کرنے والے افراد کے لیے نقد غیر ملکی کرنسی لے جانے کی حد فی سفر ایک ہزار ڈالر اور سالانہ 6 ہزار ڈالر پر برقرار رہے گی۔

اس اعلان کے بعد اب ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بین الاقوامی لین دین پر بھی یہی سالانہ حد (30 ہزار ڈالر) لاگو ہوگی۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ فی سفر نقدی رقم لے جانے کی حد فوری طور پر لاگو ہوگی جبکہ سالانہ بنیادوں پر عائد کی جانے والی حدیں یکم جنوری 2023 سے لاگو ہوں گی۔

مزید پڑھیں: مسافروں کیلئے کرنسی ڈیکلریشن کی حد میں اضافہ

علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز ان ٹرانزیکشنز کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جو متعلقہ فرد کے پروفائل کے ساتھ منسلک نہیں ہیں یا پھر وہ کاروباری مقاصد کے لیے کیے جارہے ہیں، اس لیے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز پر 30 ہزار ڈالر کی سالانہ حد مقرر کی گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو مشورہ دیا کہ ’اس بات کو یقینی بنائیں کہ بین الاقوامی لین دین کے لیے ڈیبٹ کارڈز اور کریڈٹ کارڈز کا استعمال کارڈ ہولڈرز کے پروفائل کے مطابق ہو اور صرف ان کی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال ہو۔

اسٹیٹ بینک نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز کا مقصد لوگوں کو ذاتی نوعیت کی لین دین کے لیے ادائیگی میں سہولت فراہم کرنا ہے، ان کارڈز کے لیے طے کردہ حدود کے علاوہ ان کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی ادائیگیاں کارڈ ہولڈر کے پروفائل کے مطابق ہونی چاہئیں‘۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ شہریوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس مقررہ کردہ سالانہ حد کی کسی صورت خلاف ورزی نہ ہو، تاہم بینکوں پر بھی ان حدود کی نگرانی لازمی کرنے کی ضرورت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مسافروں کیلئے کرنسی ڈیکلریشن فارم جمع کروانے کی شرط نئی نہیں ہے، ایف بی آر

علازہ ازیں گورنر اسٹیٹ بینک اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران اسٹیٹ بینک اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے قیاس آرائیوں اور گرے مارکیٹ کو روکنے کے لیے غیر قانونی فارن ایکسچینج آپریٹرز کے خلاف ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے غیر قانونی زرمبادلہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور ملک میں غیر قانونی زرمبادلہ کے کاروبار کے خلاف کارروائی کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔

دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک بھر میں غیر قانونی فارن ایکسچینج آپریٹرز اور سٹہ بازوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے کرنسی نوٹوں کے نئے ڈیزائن کی رپورٹس کو مسترد کردیا

بیان میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیمیں اب غیر قانونی فارن ایکسچینج آپریٹرز کی شناخت کریں گی اور ان پر جرمانہ عائد کریں گی۔

کرنسی کی اسمگلنگ کی تازہ ترین لہر ملک میں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے جس کا زیادہ تر تعلق افغانستان سے ہے کیونکہ پابندیوں سے متاثرہ افغانستان کو اپنی برآمدات اور درآمدات کے لیے پاکستان پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ایسی ہزاروں غیر قانونی فرمز کام کر رہی ہیں جو اسمگلروں کو ڈالر خریدنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں