اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا تسلسل، 490 پوائنٹس کی کمی

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2022
کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 39 ہزار 343 پوائنٹس کی سطح پر آگیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 39 ہزار 343 پوائنٹس کی سطح پر آگیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک میں جاری سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی صورتحال کے سبب پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں مسلسل تیسرے روز مندی کا رجحان جاری رہا اور بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس میں 490 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

کاروبار کے اختتام پر بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 490 پوائنٹس یا 1.23 فیصد کم ہو کر 39 ہزار 343 پوائنٹس کی سطح پر آگیا۔

ابا علی حبیب سیکیوریٹریز کے سلمان نقوی نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ سیاسی غیریقینی اور پنجاب اسمبلی کی صورتحال ہے جس کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کے حوالے سے یا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے (وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے حوالے) سے افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

سلمان نقوی نے بتایا کہ معاشی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے جانب سے رقم آنے کے حوالے کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے، اسی طرح بجلی کے نرخ میں بڑے اضافے کی بھی متضاد افواہیں ہیں، ان وجوہات کی وجہ سے مارکیٹ میں فروخت کا دباؤ ہے حالانکہ صبح کچھ استحکام آیا تھا۔

گزشتہ روز بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 40 ہزار کی نفسیاتی حد سے نیچے چلا گیا تھا۔

تجزیہ کار، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مندی کو پنجاب میں سیاسی بحران سے جوڑنے کے ساتھ ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال کو بھی قرار دے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ 17 دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اگلے جمعے (23 دسمبر) کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے، جس کے نئے انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

تاہم حکمراں اتحاد کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے اس کے خلاف قدم اٹھایا گیا تھا، جس کے تحت وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی، بعد ازاں گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

دونوں فریقوں کے اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہنے کے سبب ایک سخت آئینی جنگ شروع ہونے کی توقع ہے، جس کے سبب سیاسی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی معاشی صورتحال بھی دن بدن خراب ہو رہی ہے، مرکزی بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بہتر نہیں ہے، دسمبر 2021 میں اسٹیٹ بینک کے پاس 17.68 ارب ڈالر کے ذخائر تھے، جو 9 دسمبر کو 6.7 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے تھے، جس سے بمشکل ایک مہینے کی درآمدات ہو سکتی ہیں۔

آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے میں تاخیر ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، 1.18 ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان آن لائن بات چیت جاری ہے۔

باضابطہ مذاکرات جو ابتدائی طور پر اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہونے تھے، 3 نومبر کے لیے دوبارہ طے کیے گئے تھے اور پھر دونوں فریقوں کے درمیان تخمینوں میں فرق کے باعث التوا کا شکار ہیں۔

پاکستان کو باقی ماندہ مالیاتی سال میں کم از کم 13 ارب ڈالر کی قرضے واپس کرنے ہیں لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ اسے دوطرفہ یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے کب فنڈز ملیں گے، جس نے ڈیفالٹ کے خدشات کو بڑھایا ہے۔

پاکستان معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے، جسے دہائیوں کی بُلندترین مہنگائی کا سامنا ہے اور اس کے پاس خطرناک حد تک کم غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، اس کے علاوہ رواں برس کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے کم از کم 1700 ہلاکتیں ہوئیں، جس سے زراعت اور انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، حکام کی جانب سے اس کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں